کیا ڈپریشن کی بیماری خود کُشی کی وجہ ہو سکتی ہے؟
24 جولائی 2016میونخ میں ایک 18 سالہ ایرانی نژاد جرمن کی طرف سے اولمپیا شاپنگ مال میں فائرنگ کر کے 9 افراد کو ہلاک کرنے کے بعد خود اپنی جان لینے کے واقعے نے سماجی اور طبی حلقوں میں اس کے مُضمرات پر بحث چھیڑ دی ہے۔
اس بارے میں جرمن ماہر نفسیات اور خود کُشی کے عمل کی نفسیاتی وجوہات پر تحقیق کرنے والے گیورگ فیڈلر نے ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ڈپریشن یا پژمردگی کو خود کُشی یا دوسروں کو قتل کرنے کی وجہ سمجھنا ایک غلط طرز عمل ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ جرمن معاشرے میں ڈپریشن کا عارضہ کس حد تک پھیلا ہوا ہے، جرمن ماہر نفسیات کا کہنا تھا،’’شاید اس ملک کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ڈپریشن میں مبتلا ہے لیکن اس بات کو مد نظر رکھا جانا چاہیے کہ ڈپریشن کی اصطلاح بہت وسیع ہے۔ اس کی بہت سی علامات ہو سکتی ہیں مثال کے طور پر کسی شخص کا بالکل خاموش ہو جانا، زیادہ سے زیادہ غور و خوض کرتے رہنا، خود کو ملامت کرتے رہنا، خود کو ہر چیز کا ذمہ دار سمجھنا وغیرہ۔
ان تمام کیفیات میں بہت سے عوامل اپنا کردار ادا کرتے ہیں تاہم ان تمام خصوصیات یا علامات کے کسی شخص میں ظاہر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بیمار بھی ہے۔ جرمنی میں ڈپریشن کی اصطلاح کا استعمال کثرت سے دیکھنے اور سننے میں آتا ہے۔ اصلی ڈپریشن ایک خوفناک بیماری ہے، جس میں مریض بہت زیادہ سوچتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں، بہت سویرے اُٹھ جاتے ہیں یا بے خوابی کی ایسی کیفیت کا شکار رہتے ہیں، جو کئی ہفتوں تک برقرار رہتی ہے۔
کبھی کبھی ’توسیع شُدہ خود کُشی‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ اس سے کیا مراد ہے اور اسے کیسے سمجھا جانا چاہیے، اس بارے میں جرمن ماہر نفسیات کہتے ہیں،’’اس سے مراد یہ ہے کہ ایک فرد اپنے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد کے متعدد افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتار دے۔ یعنی یہ شخص ایک ماں بھی ہو سکتی ہے، جو اپنے بچے کو مار دے یا ایک باپ بھی، جو اپنی پوری فیملی کا قتل کر دے۔ دونوں صورتوں میں جنون کا شکار خود کُش فرد اس مغالطے میں ہوتا ہے کہ اُس کے اس مجرمانہ عمل کے شکار افراد یا متاثرین اُس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔
خود کُشی کے عمل کی نفسیاتی وجوہات پر تحقیق کرنے والے گیورگ فیڈلر کا کہنا ہے کہ نفسیاتی تشخیص ’ڈپریشن‘ یا پژمُردگی دراصل خود کُشی جیسے اقدامات کے امکانات کو خارج کر دیتی ہے۔
جرمن ماہر نفسیات نے گزشتہ چند سالوں کے دوران جرمنی میں رونما ہونے والے متعدد ایسے واقعات کے پیچھے ایک نہیں بلکہ متعدد عوامل کے کارفرما ہونے کی بات کی ہے، جن میں نوجوان مسلح حملہ آوروں نے اپنی مجرمانہ کارروائی سے ارد گرد کے متعدد افراد کی جانیں لیں اور خود کو بھی ہلاک کیا۔