کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا رسک شادی ہے۔ خوش قسمتی سے اچھا انسان مل جائے تو ٹھیک ورنہ قبر کی دیواروں تک کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ یہ کمپرومائز جذبات و احساسات پر حاوی ہوتا ہے حتی کہ لائف پارٹنر کی ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی صورت میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا زندہ جیسے ایک لاش ہو۔ ''کہنے کو ساتھ اپنے اک دنیا چلتی ہے‘‘ کے مصداق انہیں دنیا کی رنگینیاں بھی ویران لگتی ہیں۔
ہمارے سماج میں طلاق کے حوالے سے مثبت اور منفی یعنی ملا جلا رحجان پایا جاتا ہے۔ اگر زوجین میں مسلسل بن نہ رہی ہو تو ذہنی لحاظ سے مفلوج ہونے اور اس ریلیشن شپ کی جگ ہنسائی ہونے سے بہتر ہے کہ بھلے طریق سے ایک دوسرے سے رخصت لے لی جائے۔
قدامت پسند طبقے کا کہنا ہے کہ طلاق سے معاشرے میں ایک بے چینی جنم لیتی ہے۔ ان کے نزدیک جن افراد پر طلاق یافتہ کا لیبل لگ جاتا ہے پھر ان کو کوئی معقول رشتہ میسر نہیں آتا۔ یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں جن کو ڈسٹ بن کی نذر کر دینا چاہیے۔ طلاق کوئی عجوبہ نہیں ہے جب شریعت نے طلاق کا آپشن رکھا ہے تو ہچکچاہٹ کیسی؟
وقت کا مزاج بڑی برق رفتاری کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے۔ اب ہم برسوں پرانی مروجہ سماجی نام نہاد اقدار کے برخلاف چیزوں کو مستحسن شمار کرنے لگے ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں قبل ایک خاتون نے سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اپ لوڈ کیں، جس میں اس نے پوسٹر اٹھا رکھا تھا اور اس پر درج تھا کہ ''ہیپلی ڈیورسڈ‘‘۔ اب ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی طلاق بھی بلیسڈ ہوئی ہے؟۔
اس کا جواب دفعتاً اثبات میں ہو گا کہ جی ہاں۔ ایسا ریلیشن کہ جس میں شریکِ حیات عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہو تو گھٹ گھٹ کر جینے سے بہتر ہے گڈ بائے کہنا۔
یہ بات تو طے ہے کہ شادی ایک ایسا سوشل کنٹریکٹ ہے، جس کا آغاز اکثر و بیشتر مسرتوں، نیک تمناؤں سے ہوتا ہے تو پھر آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ ایک ساتھ جینے، مرنے کی قسمیں کھانے والے، ''میری لائف میری وائف‘‘اور ''مائی ہبی مائی ہارٹ‘‘ کہنے والے ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے بھی روادار نہیں رہتے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
بلاشبہ شادی کرنا سہل ہے مگر اس شادی کو کامیاب بنانا ہارڈ ٹاسک ہے ۔ یہ کسی ایک فرد کا کام نہیں ہے بلکہ اس رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے دونوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ زوجین کی نیت جدا ہونے کی نہیں البتہ نبھانے کی ہوتی ہے لیکن بعض ایسے امور اور کوتاہیاں سرزرد ہوجاتی ہیں جو طلاق کا سبب بنتی ہیں۔ مثلاً جب ملازمت پیشہ شوہر اور بیوی زیادہ مصروفیات کے سبب ایک دوسرے کو ٹائم نہیں دیتے جیسا کہ جاب سے فراغت کے بعد بھی اگر شوہر موبائل کو زیادہ وقت دیتا ہے اور بیوی شوہر نامدار کو اگنور کرکے میگزین پڑھنے میں مگن ہو یا ٹی وی سیریل پر توجہ دے تو ایسے میں دوریاں ہی بڑھیں گی۔
بیوی کو بھی چاہیے کہ شوہر کے آفس میں زیادہ دیر کام کرنے کو افسانوی رنگ دینے کی کوشش نہ کرے، ہر وقت مسٹر کھوجی نہ بنے۔ موبائل فون کی گھنٹی بجنے پر بلاوجہ کان کھڑے نہ کرے بلکہ موجودہ مہنگائی کے بدتر حالات کی نبض شناسی کرتے ہوئے اس کا حوصلہ بڑھائے اپنے شوہرکو تسلی دے۔ مذکورہ بالا وجوہات کے علاوہ ہمارے ہاں رائج جوائنٹ فیملی سسٹم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بلاشبہ مشترکہ خاندانی نظام کے بیش بہا فوائد ہیں مگر کئی جوڑوں میں دوریاں بھی انہی کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔
خارجی رشتوں کا حد سے زیادہ زوجین کے معاملات میں مداخلت کرنا، ٹانگ اڑانا بھی نزاعات کی آتش میں تیل کا کام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر بیٹا شادی کے بعد بیوی کو الگ گھر لے کر دینا چاہے تو اسے ''زن مرید‘‘ کے ٹائٹل سے نوازا جاتا ہے۔ اگر بیوی کی فرمائش پر کچھ کھانا، جوتی، کپڑا لے بھی آئے تو اتنے بڑے خاندان کی نظروں سے بچاتے ہوئے اسے بیوی تک پہنچانا گویا کے-ٹو سر کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔
دوسری جانب چند گھرانے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی بیٹی کو سسرال میں رہنے کا ڈھنگ اور تحمل سکھانے کی بجائے بات کا بتنگڑ بنانے سے متعلق ٹریننگ دیتے ہیں۔ غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں کہ ساس کبھی ماں نہیں ہوتی، جیٹھانی کے ساتھ کبھی دل کی بات شیئر نہ کرنا، شوہر کو مٹھی میں لیکر گھر و جائیداد اپنے نام کروا لینا وغیرہ وغیرہ۔
گھریلو ناچاقی کہاں نہیں ہوتی؟ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قوت برداشت پیدا کریں، رشتوں میں انا کو آڑے نہ آنے دیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو مسکرا کر نظرانداز کریں۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہو سکتا تو طلاق پھر اس ''ٹاکسک ریلیشن‘‘ شپ میں بلیسنگ تو ضرور ہو گی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔