کیمیائی ہتھیاروں کے انسپکٹرز دوبارہ شام میں
25 ستمبر 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس کے ایک نامہ نگار نے عالمی ادارے کے ان معائنہ کاروں کی ٹیم کے آج بدھ کے روز واپس دمشق پہنچنے کی تصدیق کر دی ہے۔ روس اور مغربی دنیا کے ملک ابھی تک یہ طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے پاس موجود کیمیائی ہتھیاروں سے محروم کرنے کے لیے کیا طریقہء کار اپنایا جانا چاہیے۔
کیمیائی ہتھیاروں کے یہ بین الاقوامی ماہرین شام میں زہریلی گیس کے حملوں سے متعلق اپنی تفصیلی تحقیقات مکمل کریں گے۔ یہ ٹیم اپنے سربراہ ایکے سیلسٹروم کی قیادت میں بذریعہ ہوائی جہاز لبنانی دارالحکومت بیروت پہنچی، جہاں سے وہ ایک قافلے کی صورت میں زمینی راستے سے شام میں داخل ہوئی۔
شام میں جاری بحران بین الاقوامی سیاست پر اس قدر چھایا ہوا ہے کہ ان دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے نیویارک میں ہونے والے اجلاس میں بھی یہی موضوع غالب ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے کل منگل کو ایک بار پھر مطالبہ کیا تھا کہ عالمی سلامتی کونسل کو شام کے بارے میں بہت سخت قرارداد منظور کرنا چاہیے۔
شام کی خانہ جنگی میں گزشتہ تیس مہینوں کے دوران اندازہ ہے کہ ایک لاکھ دس ہزار سے زائد انسان مارے جا چکے ہیں۔ ایکے سیلسٹروم کی سربراہی میں اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو شام کے خونریز تنازعے کے دوران اب تک کیے جانے والے کیمیائی ہتھیاروں کے ان حملوں کے بارے میں چھان بین مکمل کرنا ہے، جن کی تعداد مبینہ طور پر 14 بنتی ہے۔
عالمی معائنہ کاروں کی اسی ٹیم نے گزشتہ مہینے ایک ابتدائی دورے کے بعد سولہ ستمبر کو پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں تصدیق کر دی تھی کہ اکیس اگست کو دمشق کے نواح میں مشرقی غوطہ کے علاقے میں زہریلی سارین گیس کا استعمال یقینی طور پر کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس واقعے میں سارین گیس کی مدد سے کیے گئے حملے کے شواہد انتہائی واضح تھے۔
کیمیائی ہتھیاروں کے انسپکٹروں کی یہ ابتدائی رپورٹ پیش کرتے ہوئے ایکے سیلسٹروم نے کہا تھا کہ یہ دستاویز ایک عبوری رپورٹ ہے اور شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق کئی دیگر الزامات کی چھان بین ابھی باقی ہے۔
ایکے سیلسٹروم کے بقول شام کے تنازعے کے فریقین میں سے دمشق حکومت اور شامی باغیوں دونوں ہی کے خلاف الزامات ہیں کہ وہ اس تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سیلسٹروم نے ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی اے ایف پی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو اب تک تیرہ یا چودہ ایسی شکایات مل چکی ہیں کہ شامی خانہ جنگی کے دوران مختلف اوقات میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔ ’’ان میں سے چند شکایات تو اس سال مارچ میں کی گئی تھیں۔‘‘
ایکے سیلسٹروم کو امید ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ان تمام مبینہ واقعات سے متعلق اپنی ٹیم کی طرف سے چھان بین پوری ہو جانے کے بعد وہ غالبا اپنی حتمی رپورٹ اگلے مہینے اکتوبر کے آخر تک پیش کر سکیں گے۔