کینسر کے خلاف ایم آر این اے ویکسین مؤثر ہو گی؟
1 اگست 2021ایم آر این اے کا نام پہلی مرتبہ کورونا وبا کے دوران عام ہوا لیکن اس کی ٹیکنالوجی پر سائنسدان کئی برسوں سے تحقیق کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایم آر این اے کی حامل ویکسین کا استعمال کینسر کے مریضوں پر شروع کر دیا گیا ہے۔
خواتین میں کورونا ویکسین کے منفی اثرات، مگر ریسرچ کیوں نہیں
ابھی اسی سال جون کے مہینے کے وسط میں جرمنی کی دوا ساز کمپنی بائیواین ٹیک نے اعلان کیا ہے کہ بی این ٹی ون ون ون (BNT111) ویکسین کو تیاری کے دوسرے مرحلے میں استعمال کیا گیا ہے اور یہ ویکسین ایک کینسر کے مریض کو لگائی گئی ہے۔ بی این ٹی ون ون ون نامی ویکسین بھی ایم آر این اے ٹیکنالوجی کے تحت تیار کی گئی ہے۔
ایم آر این اے ٹیکنالوجی اور ویکسین
کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے اسکول برائے بائیو مکینیکل انجینیئرنگ کی اسسٹنٹ پروفیسر انا بلانکنی کا کہنا ہے کہ جس طرح سارس کووڈ ٹو میں ایم آر این اے ویکسین نے اپنا اثر دکھایا، بالکل اُسی طرح کینسر کے مریضوں میں بھی ایم آر این اے ویکسین انسانی جسم کے مدافعتی نظام (امیون سسٹم) کو اس انداز میں متحرک کرتی ہے کہ وہ ایسی پروٹین کی شناخت کرتی ہے جو کینسر کے خلیوں میں موجود ہوتی ہے۔
بنیادی طور پر ایم آر این اے ویکسین کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ وہ کسی انسان کے مدافعتی نظام کو اس جانب راغب کرے کہ وہ ان خلیوں پر حملہ کرے جو ایسی پروٹین کی حامل ہوتی ہیں۔
کورونا ویکسین کے بارے میں بڑھتے شکوک و شبہات
کینسر کی شناخت
امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں واقع میتھوڈسٹ ہسپتال کے ڈیبیکی ہارٹ اینڈ ویسکولر سینٹر کے سربراہ جان کُک کا کہنا ہے کہ ایم آر این اے ویکسین کا بنیادی مقصد مدافعتی نظام کو ایسے فعال کرنا ہے کہ وہ کینسر کی شناخت کر سکے۔
میڈیکل ریسرچر جان کُک کا مزید کہنا ہے کہ کینسر سے انسان کی موت اس لیے ہوتی ہے کہ اس کی افزائش مدافعتی نظام سے بچ جاتی ہے یا کہہ سکتے ہیں کہ کینسر جس انسان میں پھیلتا ہے، اس انسان کا امیون سسٹم کینسر کی شناخت کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
اس وقت دنیا میں کینسر یا سرطان انسانوں کی سب سے زیادہ اموات کا باعث بن رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سن 2020 میں اس بیماری کی وجہ سے ساری دنیا میں قریب دس لاکھ انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
ایم آر این اے ویکسین کا استعمال
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ویکسین کے استعمال سے انسانی جسم کو قبل از وقت بیماریوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ کینسر کے جن مریضوں پر بائیواین ٹیک کی ایم آر این اے ٹیکنالوجی والی ویکسین استعمال کی گئی ہے، ان میں کینسر کی ایک مہلک قسم میلانوما ( Melanoma) پہلے سے افزائش پا چکا ہے۔
وبا کے دنوں میں افواہوں کے ٹیکے
اس ویکسین سے انسانی جسم میں کینسر کے پھیلاؤ کی تبدیلی کو جاننا ہے۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ کینسر کے لیے ایک ہی ویکسین بنانا ایک بہت مشکل کام ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ڈانا فاربر کینسر انسٹیٹیوٹ کے معالج ڈیوڈ براؤن کا کہنا ہے کہ کینسر مرض کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر قسم میں اس کی افزائش کے عوامل مختلف ہوتے ہیں اور اس سے بظاہر یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ ہر کینسر کی قسم کے لیے ایک علیحدہ ویکسین درکار ہو گی۔
ڈیوڈ براؤن کا کہنا ہے کہ کوشش ہے کہ ویکسین ایسی تیار کی جائے جس کے استعمال سے زیادہ انسانوں میں مثبت اثرات ظاہر ہوں۔
ایم آر این اے ویکسین ہی کیوں؟
کووڈ انیس کے خلاف ایم آر این اے ویکسین کے استعمال سے کامیابی حاصل ہونے کے بعد ہی سائنسدان ایسی ویکسین دوسری بیماریوں کے لیے بھی تیار کرنے میں دلچسپی پیدا کیے ہوئے ہیں۔
ہیوسٹن کے میتھوڈسٹ ہسپتال میں کینسر بائیولوجسٹ کا ایک گروپ کینسر سے بچاؤ کی ویکسین بنانے کو کوشش میں ہے۔ یہ ویکسین ان افراد کے لیے ہو گی جن میں کینسر کی افزائش کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔
جان کُک کا کہنا ہے کہ لیبارٹری میں آر این اے آسانی سے تیار ہو جاتا ہے اور اس کی بنیاد پروٹین پر ہوتی ہے، پھر ریسرچرز کو آر این اے میں اس پروٹین کے کوڈ کو ڈالنا ہو گا، جس بیماری کے لیے اسے تیار کیا جا رہا ہے۔
بائیو این ٹیک اور موڈیرنا: ایم آر این اے ویکسین کے بعد دل کی سوزش
سن 1993 کے نوبل انعام یافتہ بائیولوجی کے پروفیسر فلپ شارپ کی دریافت کووڈ انیس ویکسین کی تیاری میں معاون ثابت ہوئے تھی۔ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی کے محقق شارپ نے آر این اے اور منقسم جین کو ستر کی دہائی میں دریافت کیا تھا۔
لُوئیزا رائٹ (ع ح / ع ب)