کینیڈا، موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑائی میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال
موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے، کینیڈا کے انویئٹ برف کی دھیرے دھیرے پتلی ہوتی تہہ پر رہتے ہیں۔ یہ افراد اب جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے خود کو حالات کے مطابق ڈھال رہے ہیں تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ ممکن ہو۔
برف کی پتلی چادر پر
نین میں، لوگ برف کی چادر پر رہتے ہیں، جو آہستہ آہستہ پتلی ہوتی جا رہی ہے۔ کینیڈا کے شمال مشرقی ساحلی صوبے نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبراڈور میں بسنے والی ایک چھوٹی سی کمیونٹی کی سڑکیں برف کی موٹی تہوں سے ہوتی ہوئیں دور دراز جھونپڑیوں اور شکار کے میدانوں تک جاتی ہیں۔ جیسا کہ مقامی باشندے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے میں کوشاں ہیں سو ان سڑکوں کی حفاظت ان کے لیے بہت ضروری ہے۔
جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال
خطے میں برف کے تہہ اور متعدد آئس ہائی ویز کی نگرانی کے لیے ریکس ہالویل نے پروگرام ”سمارٹ آئس“ کا استعمال کیا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ، اس کا مقصد نین میں زندگی کو محفوظ بنانا ہے۔ اگست میں شائع ہونے والے ایک تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ آرکٹِک خطہ 1979 اور 2021 کے درمیان عالمی اوسط کے مقابلے میں تقریباً چار گنا تیزی سے گرم ہوا ہے جو کہ ماہرین کے اندازوں سے کئی درجہ زیادہ تیز رو تبدیلی ہے۔
تاحدِ نظر برف ہی برف مگر کہاں تک؟
نین کے لوگ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ماضی میں جہاں برف کی تہہ دو میٹر تک ہوا کرتی تھی، آج، وہ صرف نوے سینٹی میٹر سے ایک سو بیس سینٹی تک پہنچ پاتی ہے۔ برف کی تہہ پتلی اور کمزور ہوتی جا رہی ہے، بہار کے مہینے گرم ہو رہے ہیں اور برف پر زندگی زیادہ خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ انویئٹ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ نئے حالات کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھال لیں۔
خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا ہو گا
کمزور برف کی تہہ اس سال خطے میں کم از کم پانچ خطرناک حادثات کا سبب بن چکی ہے۔ ہالویل بستی کے دوسرے لوگوں کو ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی تعلیم دے رہا ہے۔ تیس سے زائد انیوئٹ برادریاں اب تک یہ نیا پروگرام استعمال کر رہی ہیں۔ ہالویل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ”ہمیں خود کو موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ اور اس کے لیے ہمیں سمارٹ آئس جیسے مزید پروگراموں کی ضرورت ہوگی۔“
سنو موبائلز یا کتوں سے بندھی سلیج؟
جدید سنو موبائلز نے طویل عرصے سے کتوں سے بندھی روایتی سلیج کی جگہ لے لی ہے۔ انویئٹ کمیونٹی کے لوگ عمومی طور پر اپنے طرز زندگی میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک عملی نقطہ نظر رکھتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ اب بھی پرانی روایات کو زندہ رکھنے پر مصر ہیں۔
تبدیلی کے ساتھ ثقافت کا نقصان
نین کے زیادہ تر بچوں کی طرح، تیرہ سالہ ڈارسک نوح برف کے نیچے مچھلی پکڑنا سیکھ رہا ہے۔ بہت سے خاندان چاہتے ہیں کہ ان کے بچے برف پر زندگی گزارنے کے قابل ہوں، لیکن موسمیاتی تبدیلی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ ہولویل کا ماننا ہے، ”اس سے ثقافت کا نقصان ہو گا۔ بچوں کی شناخت تو انویئٹ کے طور پر جاری رہے گی، مگر ان کاتجربہ اپنے والدین جیسا نہیں ہوگا۔‘‘
زندہ رہنے کے لیے ماہی گیری اور شکار
زندہ رہنے کے لیے زیادہ تر انویئٹ لوگوں کا انحصار ماہی گیری اور شکار پر ہوتا ہے۔ ایسا کرنے سے کینیڈا کے شمال مشرق میں واقع ان علاقوں میں زندگی گزارنے کی لاگت کم رہتی ہے۔ کیٹی ونٹرز ایک مقامی انویئٹ اپنی رسوئی میں خطے کی مخصوص خشک مچھلی“پسٹک“ بناتے ہوئے کہتی ہیں، ”میں چاہتی ہوں کہ سب کچھ پہلے کی طرح واپس آجائے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ہم دوبارہ کبھی ویسا دیکھ پائیں گے۔‘‘