گاڑی چلانے کی خوشی، سعودی خواتین نے جشن منایا
24 جون 2018اتوار کی رات بارہ بجتے ہی سعودی خواتین ڈرائیورز نے ریاض اور دیگر شہروں میں اپنی کار میں بلند آواز میں میوزک چلا کر اس پابندی کے خاتمے کا جشن منایا۔
ایک ٹی وی ٹاک شو کی میزبان اور مصنفہ سمر الموگرین نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ مجھے پتہ تھا کہ ایسا ہو گا لیکن اتنی جلدی ایسا ہونے کی توقع نہیں تھی۔ مجھے لگ رہا ہے کہ میں کسی پرندے کی طرح آزاد ہوں۔‘‘
ٹی وی میزبان سبیکا دوساری نے گاڑی چلانے کی اجازت ملنے پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’’ یہ ہر سعودی خاتون کے لیے تاریخی لمحہ ہے۔‘‘
سعودی حکومت کے اس اقدام سے خواتین کے لیے بہت سہولت ہو گئی ہے۔ اب انہیں کہیں آنے جانے کے لیے ڈرائیوروں یا مرد رشتہ داروں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔
سعودی عرب میں ایک مشاورتی فرم کا کہنا ہے کہ سن 2020 تک قریب تین ملین خواتین ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر کے گاڑی چلا سکیں گی۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سعودی حکومت کی لچک دار اور لبرل تصویر اجاگر کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ تاہم ایک طرف تو محمد بن سلمان نے خواتین کے گاڑی چلانے پر عائد پابندی ختم کرنے کا فرمان جاری کیا ہے لیکن دوسری جانب حقوق نسواں کے لیے آواز اٹھانے والی سرگرم عمل خواتین کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ولی عہد محمد بن سلمان نئی اصلاحات کے ذریعے بظاہر ملک میں موجودہ سخت سماجی قوانین میں نرمی لانا چاہتے ہیں لیکن حالیہ کریک ڈاؤن نے سعودی عرب میں ولی عہد کے ترقی پسندانہ رحجانات کے نفاذ کے عمل کو متاثر بھی کیا ہے۔
انسانی حقوق کے فعال کارکنان اور سعودی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں گرفتاریوں کا نیا سلسلہ غالباﹰ ملک میں قدامت پسند عناصر کو خوش کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ شاید یہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنان کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ اپنے مطالبات پیش کرنے میں حکومت کی متعین کردہ حدود سے باہر نہ نکلیں۔
ص ح/ ع ب/ اے ایف پی