گزشتہ سال اٹھائیس کروڑ سے زائد افراد شدید بھوک کا شکار ہوئے
25 اپریل 2024اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں خوراک کے بحران پر اپنی تازہ ترین رپورٹ بدھ کے روز جاری کی، جس میں کہا گیا ہے کہ غذائی تحفظ میں تیزی سے گراوٹ کی وجہ سے سال 2022 کے مقابلے گزشتہ سال یعنی 2023 میں 24 ملین سے زیادہ افراد کو خوراک کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق بالخصوص غزہ کی پٹی اور سوڈان خوراک کے بحران سے شدید متاثرہ علاقوں میں شامل ہیں جبکہ خوراک کے بحران کے شکار ملکوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہواہے۔
غزہ میں وسیع تر عوامی فاقہ کشی کے خلاف اور زیادہ تنبیہات
بھارت گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان اور بنگلہ دیش سے پیچھے
اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے چیف اکنامسٹ میکسیمو ٹوریرو نے کہا کہ پانچ ملکوں میں سات لاکھ سے زیادہ افراد خوراک کے بحران کے پانچویں مرحلے میں پہنچ گئے ہیں۔ بھوک کے معیار کا تعین کرنے کے لیے بین الاقوامی ماہرین کی طرف سے طے کردہ پیمانے کے مطابق پانچواں مرحلہ سب سے سنگین ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جن 80 فیصد افراد کو آنے والے دنوں میں انتہائی قحط کا سامنا ہونے والا ہے ان میں غزہ کے پانچ لاکھ 77 ہزار افراد شامل ہیں۔ جنوبی سوڈان، برکینا فاسو، صومالیہ اور مالی میں بھی ہزاروں افراد تباہ کن بھوک کا سامنا کررہے ہیں۔
جولائی تک حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں
رپورٹ کے مطابق آئندہ جولائی تک غزہ میں تقریباً گیارہ لاکھ افراد اور جنوبی سوڈان میں 79 ہزار افراد خوراک کے بحران کے پانچویں مرحلے میں پہنچ جائیں گے۔
یومیہ ایک ارب افراد کی خوراک کا ضیاع مگر کروڑوں بھوک کا شکار
پاکستان: غذائی عدم تحفظ کی صورتحال انتہائی تشویش ناک
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تصادم کی وجہ سے ہیٹی میں بھی خوراک کے عدم تحفظ کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے، جہاں دارالحکومت کے بڑے حصے پر شرپسند گروہ قابض ہوچکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ال نینو کا معاملہ بھی رواں برس کے اوائل میں اپنے عروج پر تھا، جس کی وجہ سے خوراک کی سلامتی پر کافی اثر پڑا۔ ال نینو کے سبب مشرقی افریقہ کے متعدد علاقوں بالخصوص ملاوی، زامبیا اور زمبابوے میں بہت کم بارش ہوئی اور پورے سال یہی صورت حال رہنے کا امکان ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے اس رپورٹ کو''انسانی ناکامیوں کا اعلانیہ ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ،'' دنیا میں جب کہ بہت کچھ دستیاب ہے ایسے میں بھی بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے رپورٹ کے پیش لفظ میں لکھا،''پچھلے بارہ ماہ سے جاری تنازعات نے ایک سنگین عالمی صورتحال کی شکل اختیار کرلی ہے۔‘‘
فوری اقدامات کی ضرورت
رپورٹ کے مطابق 39 ممالک اور خطوں میں 36 ملین سے زیادہ افراد کو بھوک کی شدید ایمرجنسی کا سامنا ہے، جو کہ قحط کی سطح یعنی چوتھے مرحلے سے صرف ایک قدم نیچے ہے، ان میں سے ایک تہائی سے زیادہ تعداد سوڈان اور افغانستان میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ تعداد سال 2022 ء کے مقابلے دس لاکھ زیادہ ہے۔
خوراک کی بہتر پیداوار اور استعمال سے کھربوں ڈالر کی بچت ممکن، رپورٹ
اقوام متحدہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے چیف اکنامسٹ عارف حسین نے کہا کہ سن 2016 ء کے بعد سے ہر سال ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جو شدید طورپر غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ لیکن کووڈ انیس کی وبا سے پہلے کے مقابلے میں ان کی تعداد اب دوگنی سے زیادہ ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گوکہ رپورٹ میں 59 ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے لیکن 73 ملکوں کے اعدادوشمار حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو شدید خوراک کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ رپورٹ میں جن حالات کی نشاندہی کی گئی ہے ان پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خوراک کی سپلائی کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالی امداد بھی ضرورت کے مطابق نہیں ہورہی ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے چیف اکنامسٹ عارف حسین کا کہنا تھا،''ہمارے پاس فنڈنگ ہونی چاہیے اور ہمارے پاس رسائی بھی ہونی چاہیے۔ دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہوگا کیونکہ یہ شدید غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔‘‘
ج ا / ک م (روئٹرز)