گلوبل وارمنگ سے بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی
24 ستمبر 2023مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے مشین لرننگ ماڈل کی مدد انکشاف کیا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھتے اخراج اور گلوبل وارمنگ کے باعث سن 2015 کے بعد دنیا کے مختلف خطوں میں بارشوں کی سالانہ اور ماہانہ اوسط کے ساتھ مقدار پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔
نیچر سائنس جرنل کے آن لائن جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کی سرکردگی چونم نیشنل یونیورسٹی آف چائنہ سے وابستہ یوجیون ہام اور پوہانگ یونیورسٹی کے پروفیسر سیونگ کیمن نے کی ہے۔ جبکہ یونیورسٹی آف ہوائی کے دو محققین نے بھی اس تحقیق میں معاونت کی ہے۔
حالیہ تحقیق کیا ہے؟
پروفیسر یو جیون ہام نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ روزانہ بارش کے تغیر میں شدت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں شدید بارش کے واقعات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی موسم گرما کے دوران ہیٹ ویوز کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے جس سے بہت سے خطے خشک سالی کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس تیزی سے عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے موسم گرما میں ہیٹ ویوز، شدید بارشوں اور طوفانوں کی شرح مزید بڑھے گی۔
پروفیسر یو جیون ہام کے مطابق ان کی ٹیم نے تحقیق کے لیے ایک بڑے کلائی میٹ ماڈل کو ڈیپ لرننگ الگورتھم کے ساتھ منسلک کیا تاکہ روزانہ بارش میں تغیرات کا گلوبل وارمنگ سے تعلق معلوم کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سن 2015 کے بعد دنیا بھر میں ہونے والی بارشوں سے متعلق سٹیلائٹ ڈیٹا حاصل کیا۔
تحقیق کے نتائج کیا ہیں؟
پروفیسرجیون ہام بتاتے ہیں کہ ان کی تحقیق کے مطابق سن 2015 سے سال کے پچاس فیصد دنوں( یعنی 185 دن) میں روزانہ ہونے والی بارشوں میں واضح تغیرات آئے ہیں۔ ان تغیرات کا تعلق انسانی سرگرمیوں سے ہے جن میں کاربن کا بڑھتا ہوا اخراج سر فہرست ہے۔
جیون ہام کے مطابق عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سےخطِ استوا کے قریب واقع علاقوں اور ٹراپیکل ریجن میں شدید بارشیں اب معمول بن گئی ہیں۔ یہاں بہت کم دن ایسے ہوتے ہیں جب بارش نہ ہو۔ موسم میں اس بڑے تغیر سے ان علاقوں میں طوفانی بارشیں اور سیلاب کی شرح بڑھ گئی ہے اور ایکو سسٹمز میں غیر معمولی تبدیلیاں بھی ہو رہی ہیں۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ اسی طرح جنوب مشرقی پیسیفک ریجن میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم شدید خشک ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے ہیٹ ویوز، جنگلات کی آگ اور خشک سالی میں اضافہ ہوا ہے۔
پروفیسر جیون ہام کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کاربن کے اخراج کو فوری طور پر کم کرنے کے علاوہ چھوٹے پیمانے پر بارشوں سے متعلق علاقائی ڈیٹا مانیٹر کیا جانا چاہیے۔
اس طرح مزید تحقیق کے لیے مقامی ڈیٹا باآسانی دستیاب ہو گا، جس سے پتا لگایا جا سکے گا کہ کسی مخصوص علاقے میں بارشوں کی کمی یا زیادتی کا تعلق گلوبل وارمنگ سے ہے یا اس کی دیگر اینتھروپولوجیکل وجوہات ہیں۔
تحقیق کا پس منظر کیا ہے؟
اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا بھر میں کاربن کے بڑھتے ہوئے اخراج اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بارشوں کی اوسط میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئی ہیں۔ بہت سے خطوں میں معمول سے زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں تو دوسری جانب بارشوں کی قلت سے بہت سے علاقے شدید خشک سالی کا شکار ہیں۔
نیچر جرنل میں شائع ہونے والے حالیہ ریسرچ پیپر سے پہلے بھی اس موضوع پر کافی تحقیق کی گئی ہے لیکن ان شماریاتی ماڈلز میں محض سالانہ اور ماہانہ بارشوں کی اوسط سے متعلق اعداد و شمار بیان کیے گئے تھے، جن میں علاقائی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق معلومات کی کمی تھی۔
حالیہ تحقیق میں معاونت کرنے والے یونیورسٹی آف ہوائی کے سائنسدانوں کے مطابق اس سے پہلے روزانہ بارشوں میں ہونے والے تغریات کو جانچنے کے لیے تحقیق میں دو مسائل رکاوٹ بنتے تھے۔
پہلا مسئلہ یہ تھا کہ روزانہ کی بارشوں میں بہت سے مقامی عوامل کا دخل بھی ہوتا ہے جیسے ہوا میں نمی یا ہوا کا دباؤ وغیرہ۔ ان عوامل سے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ گلوبل وارمنگ کا ان پر زیادہ اثر نہیں پڑتا۔ جبکہ مزید تحقیق میں دوسرا امر یہ کہ روایتی تحقیقی ماڈلز بارشوں میں ہونے والے بڑے تغریات سے متعلق مکمل اعداد و شمار فراہم کرنے سے قاصر تھے۔
محققین کا کہنا ہے کہ ان مسائل کو نئی تحقیق میں ڈیپ لرننگ ماڈل کی مدد سے دور کیا گیا ہے۔