گلگت بلتستان: ضلع دیامر میں اسکولوں کو کون جلا رہا ہے؟
8 نومبر 2022اُس وقت اسکول کی عمارت کو نامعلوم افراد نے آگ لگائی تھی اور دھواں اٹھ رہا تھا۔ شگفتہ کہتی ہیں کہ یہاں معمول کے مطابق سارا تعلیمی سلسلہ چل رہا تھا کہ اچانک اسکول کو آگ لگا دی گئی، ''پیشگی نہ تو کوئی دھمکی ہمیں ملی تھی اور نہ ہی کوئی ایسی اطلاع تھی‘‘۔
گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کی سب ڈویژن وادی داریل میں سمیگال گرلز پرائمری سکول سات ستمبر 2022ء سے باقاعدہ درس و تدریس کے لیے کھول دیا گیا تھا، جہاں اساتذہ و ملازمین کی مستقل آسامیاں بھی تاحال منظور نہیں ہوئی تھیں۔ اس سکول میں مجموعی طور پر 68 طالبات زیر تعلیم ہیں، جن میں سب سے زیادہ پہلی کلاس میں 35 طالبات ہیں۔
حضرت حسین ولد عبدالودود اس سکول میں رضاکارانہ طور پر رات کو چوکیدار کی خدمات سرانجام دے رہا تھے۔ حضرت حسین کہتے ہیں، ''رات کو ایک بجے سات بندے آ گئے اور انہوں نے میرے ہاتھ پیر باندھے، آنکھوں پہ پٹی چڑھائی اور پکڑ کر لے گئے، دو یا تین بندھے میرے ساتھ تھے، تقریباً دو گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد انہوں نے مجھے چھوڑا اور ہاتھ کھولے، خود غائب ہو گئے، وہاں سے میں پیدل واپس سکول کی طرف ہی آیا لیکن اسکول پہنچنے سے پہلے اذان ہو چکی تھی اور پتہ چلا کہ انہوں نے مجھے پکڑنے کرنے کے بعد سکول کو آگ لگا دی تھی‘‘۔
وادی داریل ضلع دیامر کے ہیڈکوارٹر چلاس سے تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں پہنچنے کے لیے خیبرپختونخوا کی کئی وادیوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ طالبات کے اسکول کو نذر آتش کرنے کی خبر ملتے ہی چیف سکریٹری گلگت بلتستان نے نوٹس لیا اور اعلان کیا، '' ہم اپنی بچیوں کے تعلیم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جس کسی نے یہ شرپسندی کی ہے، ان سے نمٹنے کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔
چیف سکریٹری گلگت بلتستان نے فوری طور پر متعلقہ ذمہ داران کو داریل روانہ کر دیا اور ہدایت کی کہ 72 گھنٹوں کے اندر اسکول کی عمارت کو دوبارہ اپنی اصل حالت میں لایا جائے اور اسکول کی بحالی کے لیے تمام وسائل کو متحرک کیا جائے۔
داریل سمیگال میں طالبات کی پرائمری سکول کو نذر آتش کرنے کے واقعہ میں اسکول کی عمارت، ریکارڈ اور فرنیچر جل کر خاکستر ہو گئے۔
اس سکول کے ہیڈ ماسٹر رحمت غنی کی مدعیت میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ نامعلوم شرپسندوں نے سکول کی عمارت کو رات کے اندھیرے میں آگ لگائی، جس سے سکول کا سارا سامان جل گیا۔
ضلع دیامر کے پولیس سربراہ شیر خان کے مطابق اس سکول کی عمارت چونکہ حال ہی میں مکمل ہوئی اور دو ماہ پہلے کلاسز شروع ہوئی تھیں تو بجلی کا نظام ہی نہیں تھا، جس کی وجہ سے آتشزدگی کا عنصر خارج از امکان ہے اور واضح ہے کہ اس عمارت کو آگ لگائی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ شرپسندی اور دہشت گردی ہے اور ایسے تعلیم کُش اقدامات کو قبول نہیں کیا جائےگا، '' ہم نے تحقیقات کا آغاز کیا ہے اور ہر زاویے سے تحقیق کریں گے۔ جو بھی اس شرپسندی میں ملوث ہے ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ داریل تانگیر اور دیامر میں حکومت کی تعلیم پر بھرپور توجہ ہے، اس لیے لیڈی پولیس بھی تعینات کر کے ہوم اسکولز کو چلایا گیا ہے‘‘۔
اس واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے دیامر یوتھ موومنٹ نے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ جبکہ مذکورہ گاؤں سمیگال کے عمائدین نے بھی ایک اجلاس کے بعد قرار داد منظور کی ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ شرپسند عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ان دہشت گردوں کا تعاقب کر کے قرار واقعی سزادی جائے۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے
ضلع دیامر میں اسکولوں کو جلانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل اگست 2018 کو دیامر میں 13 اسکولوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا، جن میں سے 11 طالبات کے سرکاری اسکول تھے جبکہ دو پاک آرمی کے زیر تعمیر اسکول بھی تھے۔ مذکورہ 13 اسکولوں میں سے سات سکول اسی وادی داریل میں تھے۔
اسسٹنٹ کمشنر داریل خالد انور نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور انتظامیہ پرعزم ہیں کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے، '' شرپسندوں نے اس اسکول کو جلایا ہے، ہم اس کی بحالی کے لیے چوتھی صبح کا انتظار نہیں کریں گے بلکہ تین دنوں کے اندر چیف سکریٹری گلگت بلتستان کی ہدایت پر اس کو بحال کر کے دکھائیں گے‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد اعلیٰ سطحی اجلاس میں نئے سکیورٹی پلان کی منظوری دے دی گئی ہے۔ نئے سکیورٹی پلان کے مطابق طالبات کے ہر اسکول میں لیویز اور پولیس کو تعینات کیا جائے گا۔ داریل میں طالبات کے کل 20 اسکول ہیں اور ہر سکول میں ایک لیوی، ایک پولیس جوان اور اسکول کا ایک چوکیدار ہر وقت تعینات رہے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا، '' آئندہ اس قسم کے کسی بھی واقعے سے نمٹنے کے لیے روابط کا نظام وضع کریں گے تاکہ بروقت ایکشن لے سکیں۔ اسکولوں کو اس بات کا اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہیں مزید سکیورٹی طلب کر سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان سکاؤٹس کی پٹرولنگ ٹیم داریل میں تعینات ہو گی اور وقتاً فوقتاً اسکولوں کے ہیڈماسٹروں سے ملاقات کرتی رہے گی‘‘۔
ماضی کے واقعات سے اس واقعے کی مماثلت پر اسسٹنٹ کمشنر دیامر خالد انور نے بتایا کہ اب تک کسی بھی گروہ کی جانب سے اس واقعے کو قبول نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی فرد واحد سامنے آیا ہے۔ تاہم انتظامیہ اور پولیس نے اپنی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔