گمشدہ افراد کا ’ریکارڈ مرتب کرنے والا‘ خود لاپتہ
19 نومبر 2019ادریس خٹک سیاسی طور پر ایک نیشنل پارٹی سے وابستہ ہیں جبکہ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل میں بھی کام کر چکے ہیں۔ ان کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کا ریکارڈ مرتب کر رہے تھے۔ انہیں تقریبا چھ دن پہلے صوابی انٹر چینج سے نامعلوم افراد نے ڈرائیور سمیت اٹھا لیا تھا۔ ان کے قریبی ذرائع کے مطابق ان کے ڈرائیور کو بعد میں رہا کر دیا گیا لیکن وہ اب بھی لا پتہ ہیں۔
ان کی مبینہ 'جبری گمشدگی‘ پر سیاسی اور سماجی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے جب کہ سوشل میڈیا پر بھی ان کی 'جبری گمشدگی‘ پر تبصرے کے جا رہے ہیں۔ سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بڑا خطرناک رجحان ہے کہ ریاست اختلافی آوازوں کو دبا رہی ہے اور سیاسی مخالفین کو خاموش کرا رہی ہے جب کہ ہزاروں انسانوں کے قاتل طالبان کو پروٹوکول دیا جارہا ہے اور ان کو خیبرپختونخوا میں کام کرنے کی کھلی آزادی دی جا رہی ہے۔ ادریس خٹک کو مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھایا ہے اور ستم یہ ہے کہ آخری اطلاعات تک اغوا کاروں کے خلاف ایف آئی آر بھی نہیں کاٹی جا رہی تھی۔‘‘
انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پاکستانی حکومت انسانی حقوق اور سیاسی کارکنوں کی آوازیں دبانے کا سلسلہ بند کرے اور ادریس کو فوری طور پر بازیاب کرائے، ''پارلیمنٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی اور یو این کے ہیومن رائٹس کمیشن کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ لوگوں کو اغوا کرنے کے سلسلے کو فوری طور پر بند کیا جانا چاہیے۔‘‘
پاکستان میں جبری گمشدگی کے معاملے کو کئی حلقے سنگین قرار دیتے ہیں۔ ابتدائی طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ بلوچ علیحدگی پسندوں اور طالبان عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد ایسے گمشدہ افراد میں شامل ہے۔ لیکن اب ناقدین کا دعوی ہے کہ اس میں سیاسی کارکنان اور سول سوسائٹی کے ارکان بھی شامل ہیں۔ ایم کیو ایم کا دعوی ہے کہ اس کے ایک سو پچاس کے قریب کارکنان جبری طور پر لاپتہ ہیں۔ جب کہ جئے سندھ، شعیہ جماعتیں اور دوسری مذہبی و سیاسی تنظیمیں بھی ایسی ہی شکایات کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جبری گمشدگی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان پر سیاست دان پریشان نظر آتے ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ اب عام شہریوں کو بھی اس غیر انسانی عمل کا شکار بنایا جا رہا ہے۔
سابق وفاقی وزیر برائے جہاز رانی و بندرگاہ میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی اس مسئلے پر خاموش نہیں رہے گی، ''میں ذاتی طور پر ادریس خٹک کو جانتا ہوں۔ وہ ایک انتہائی شریف انسان ہے لیکن فرض کر بھی لیں کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے تو آپ اس کو عدالت میں پیش کریں۔ ہم ادریس سمیت جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے معاملےکو عدالتوں اور پارلمینٹ سمیت ہر فورم پر اٹھائیں گے۔ اس سے ملک کے بدنامی ہو رہی ہے کیونکہ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں اس طرح شہریوں کو نہیں اٹھایا جاتا۔‘‘
فارمین کرسچین کالج یونیورسٹی لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عمار علی جان کا کہنا ہے کہ ریاست کنفیوژن کا شکار ہے، ''انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ارکان مشکل میں ہیں۔ ان کے لئے پاکستان میں کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی کارکنان کے لئے بھی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ ‘‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا خیال ہے کہ اگر ادریس خٹک کو فوری طور پر بازیاب نہیں کرایا گیا تو مخالفین پاکستان کے خلاف پرو پیگنڈہ مزید شدید کریں گے، ''ہم کس منہ سے کسی اور ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا رونا روئیں گے اگر ہمارے اپنے ملک میں ایسے واقعات ہو رہے ہوں۔ ادریس خٹک کا انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی میں بڑا احترام ہے۔ سوشل میڈیا ان کی گمشدگی پر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ کئی نامور شخصیات نے بھی ان کے لئے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ایسے میں اگر حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر ہمارے لئے مسائل مزید بڑھیں گے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے حکومتی ذمہ داروں سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔