گم شدہ براعظم ’گونڈوانا‘ کی باقیات دریافت
17 نومبر 2011زیر آب براعظم " گونڈوانا" کے یہ دو جزائرگزشتہ ماہ ایک سروے کے دوران آسٹریلیا کے مغرب میں 1600 کلومیٹر دور پانی میں دریافت کئے گئے۔
اس حوالے سے محقیقین میں شامل ماہرارضی طبیعات جو واٹیکر(Jo Whittaker) نے AFP کو بتایا کہ ان جزائر کی چٹانوں پر انہیں سمندری مخلوقات کے فوسلز بھی ملے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کبھی کسی زمینی براعظم کا حصہ تھے ۔ ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ایک حیرت انگیز دریافت ہے اور اس سے سانئسدانوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کیسے 80 سے 130 ملین سال پہلے براعظم " گونڈوانا" آسٹریلیا، قطب شمالی اور بھارت کے درمیان ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔
جو واٹیکر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان براعظموں کے جغرافیائی خد وخال کے حوالے سے معلومات تو ہیں لیکن اس بارے میں اصل حقائق سے ابھی آگاہی نہیں ہو سکی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر سمندروں کی نسبت مشرقی بحر ہند کے مختلف حصوں کی دریافت اوراس حوالے سے تحقیقی کام غیر تسلی بخش رہا ہے۔ سطح سمندر سے 2000 میٹرگہرائی میں دریافت کیے جانے والے ان دو جزیروں میں سے ایک کی چٹانوں سے حاصل ہونے والے ریتلے پتھر اور گرینائیٹ کے نمونوں سے متعلق محققین کا خیال ہے کہ یہ ایک بلین سال پرانے ہو سکتے ہیں۔
ان نمونوں کا مغربی آسٹریلیا کی ساحلی چٹانوں سے موازنہ کیا جائے گا جس سے اس بات کا تعین ہو سکے گا کہ کس حتمی مقام سے یہ جزیرے علیحدگی کے عمل سے دوچار ہوئے تھے۔ واٹیکر کہتی ہیں کہ ان کے لیے یہ کامیابی نہایت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ایسا کبھی کبھار ہی ممکن ہوتا ہے کہ سمندر میں اتنے بڑے براعظم کے کچھ حصوں کو دریافت کیا جائے۔ تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس تحقیقی کاوش کے نتیجے کو دوسری متعلقہ تحقیقی رپورٹوں کے ساتھ مطالعے سے زمین کی تخلیق بارے معلومات دستیاب ہو سکیں گی۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت : عابد حسین