گوادر میں حق دو مظاہرہ، ہزاروں افراد سڑکوں پر
22 نومبر 2022دھرنا مظاہرین کہتے ہیں ترقی کے دعویدارحکمران بلوچستان میں زمینی حقائق پر توجہ دینے کے بجائے، مبینہ ذاتی مفادات اورغیرملکی کمپنیوں کے مالی فوائد کے لیے اقدامات کررہے ہیں ۔
بلوچستان میں داعش کے خلاف بڑا آپریشن
پاکستان میں سیلابی تباہی واقعی ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ؟
گوادربندرگاہ جانے والی ایکسپریس وے پر سراپا احتجاج سماجی رہنما 37 سالہ مہوش بلوچ کہتی ہیں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کومعاشی انقلاب سے تعبیر کرنے والے حکمرانوں کوصوبے کے حال کا کوئی احساس نہیں ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ بلوچستان پاکستان کی ترقی کا محور ہے ۔ صوبے کے مسائل حل کرنے کے لیے بلندوبانگ دعوے کرنے والے حکمران یہاں کے حقیقی مسائل سے اگاہی بھی پسند نہیں کرتے۔ اسلام آباد کی ایما پر بننے والی ہر پالیسی صوبے کے عوام کو مذید پسماندگی کی جانب دھکیل رہی ہے۔ گوادر اور دیگر ساحلی علاقوں کے عوام گزشتہ 25 یوم سے اپنے جائز مطالبات کے لیے سراپا احتجاج ہیں مگر اب تک ان کی دادرسی نہیں کی گئی ہے۔‘‘
مہوش بلوچ کا کہنا تھا کہ حکمران طبقے نے اگر ساحلی علاقوں کے عوام کے مطالبات منظور نہ کیے تو ان کے پاس گوادر بندگاہ کی بندش کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہیں ہے۔
انہوں نے مذید کہا،''جان بوجھ کر عوام کو دیوار سے لگانےکی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم نے ہمیشہ پرامن طور پر احتجاج کیا ہے۔ کیا حقوق کے لیے آواز بلند کرنا جرم ہے؟ بلوچ عوام اپنے جائز مطالبات کے لیے دردرکی ٹھوکریں کھانے پرمجبور ہیں۔ حکمران ہمارے وسائل لوٹ کرعیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور ملک سے باہر بھی ان کی اثاثے حساب سے باہر ہیں۔‘‘
مہوش بلوچ کا کہنا تھا کہبلوچستان کو پسماندگی سے دوچارکرنے والے ملک میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں اور صوبے کے مظلوم عوام کو کسی بھی فورم پر کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔
گوادر میں جاری احتجاجی تحریک کی قیادت جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کر رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے صوبائی رہنما مولانا عبدالحق ہاشمی کہتے ہیں،'' گوادر میں جاری احتجاج کے اس دوسرے مرحلے کے 25 دن مکمل ہوچکے ہیں مگر ابھی تک حکومت نے سنجیدگی کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا۔‘‘
ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''دیکھیں بلوچستان کی پسماندگی اور دوچار بحرانوں پر حکومت اس وقت مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ عوامی مفادات کے معاملات کو جان بوجھ کرالتوا کا شکارکیا جا رہا ہے۔ گوادر اور دیگر ساحلی علاقوں کے عوام نے کوئی غیر قانونی مطالبہ نہیں کیا ہے۔ ان پسماندہ علاقوں کے عوام بنیادی مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ حکمران ان تمام مسائل سے بخوبی آگاہ ہونے کے باجود سوائے فرضی دعوؤں کے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہے ہیں۔‘‘
مولانا عبدالحق ہاشمی کا کہنا تھا کہ سابقہ احتجاجی تحریک کے دوران بھی حکومت نے جو وعدے کیے تھے انہیں تاحال عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ہے۔
انہوں نے مذیدکہا،''دھرنا مطاہرین نے حکومت کو جو مطالبات پیش کیے ہیں، ان میں بلوچستان کی سمندری حدود میں غیرقانونی ماہی گیری کو روکنا اور لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کو منظرعام پرلانا سر فہرست ہے۔ ان علاقوں میں چونکہ بے روزگاری بہت ہے، اسی لیے اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش سرحدی تجارت سے وابستہ ہے۔ مظاہرین نے یہ مطالبہ بھی پیش کیا ہے کہ حکومت ساحلی علاقوں کے عوام کو سرحدی تجارت میں خصوصی رعایت دے اور وہاں منشیات کے بڑھتے ہوئے کاروبار کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔‘‘
گوادر میں گزشتہ برس بھی حق دو تحریک کی کال پر بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔ ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس احتجاج میں ایک لاکھ سے زائد لوگ شریک ہوئے تھے۔
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کہتے ہیں ترقیاتی منصوبوں میں عوامی مفادات کو نظرانداز کرنے سے معاملات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''بلوچستان اس تمام خطے کا بہت اہم حصہ ہے اور یہاں رونما ہونے والی تبدیلوں کے اثرات براہ راست عوام پر پڑ رہے ہیں۔ جغرافیائی طور پر بلوچستان کی اہمیت پر وہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ گوادر، جیوانی، پسنی اور دیگر علاقوں میں مقیم لوگوں کے تحفظات دور کیے بغیر یہ معاملات بہتر نہیں ہو سکتے۔ طاقت کے زور پر آج تک کسی بھی دیرنہ مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکا ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ حکومت دھرنا مظاہرین کے مطالبات کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے۔‘‘
واضح رہے کہ گوادر میں حق دو تحریک کی کال پرہونےوالا طویل احتجاجی دھرنا وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بعد ختم کیا گیا تھا۔