1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوانتانامو کا قیدی، امریکی عدالت میں پیش

10 جون 2009

کیوبا میں قائم امریکی حراستی مرکزگوانتانامو کمیپ کے پہلے قیدی کو امریکی سرزمین پر ایک سول عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ اس پر 1998 میں مشرقی افریقہ میں دو امریکی سفارت خانوں پر بم حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

https://p.dw.com/p/I77G
ملزم کی ایک پرانی تصویرتصویر: AP

گوانتاناموکے حراستی کیمپ میں ستمبر 2006 سے قید تنزانیہ کے شہری احمد خلفان غائلانی کو آج امریکی سرزمین پر ایک عدالت میں پیش کر دیا گیا جہاں اس خود کو بے قصور قرار دیا۔

امریکی حزب اختلاف ری پبلکینز نے اوباما کے اس منصوبے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔تاہم اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کا کہنا ہے کہ احمد خلفان کو انصاف کے تقاضوں کے پیش نظر امریکہ منتقل کیا گیا اور اس سے امریکی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔

احمد خلفان پرسات اگست 1998 کو تنزانیہ کے شہر دارالسلام اور کینیا کے شہر نیروبی میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ اس پر 286 افراد کے قتل، قتل کے منصوبے، بم دھماکوں اورامریکی شہریوں کے خلاف وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کا الزام بھی ہے جبکہ اسے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے ساتھ امریکی شہریوں کو ہلاک کرنے کے لئے تعاون کا موردالزام بھی ٹھہرایا جا رہا ہے۔

Gefangenenlager Guantanamo auf Kuba Flash-Galerie
گوانتانامو کے حراستی مرکز کا ایک منظرتصویر: AP

جرم ثابت ہوا تو اسے سزائے موت ہو سکتی ہے۔ اس کے خلاف مقدمے کی آئندہ سماعت 16 جون کو ہوگی۔

امریکہ کی دیوانی عدالت میں احمد خلفان کی پیشی کو صدر باراک اوباما کے گوانتانامو کے حراستی کمیپ کو بند کئے جانے کے منصوبے کی جانب پہلا عملی قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ اوباما آئندہ سال تک اس حراستی کیمپ کی بندش چاہتے ہیں۔ وہ یہ اُمید بھی ظاہر کر چکے ہیں کہ دیگر ممالک گوآنتانامو کے قیدیوں کو اپنے ہاں قبول کریں۔

’’گوانتانامو کے حراستی کیمپ کو بند کرنے کے لئے ہم نے یورپی یونین سے بات کی ہے۔ اس معاملے پرجرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی کھل کر بات کی ہے۔‘‘

گوانتانامو کے حراستی کیمپ میں 240 افراد ابھی تک قید ہیں جن کا تعلق 30 ممالک سے ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق گوآنتانامو میں یمن کے 100، افغانستان کے 25، الجزائر کے 20، چین کے 17 اور سعودی عرب کے تقریبا ایک درجن شہری قید ہیں جبکہ دیگر کا تعلق وسطی ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کی مختلف ریاستوں سے ہے۔

ابھی تک فرانس نے الجزائر کے ایک باشندے کو اپنے ہاں قبول کیا ہے جبکہ ایتھوپین نژاد ایک برطانوی شہری بھی برطانیہ لوٹ چکا ہے۔ تاہم بیشتر ممالک ان قیدیوں کو اپنے ہاں قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں جبکہ امریکی کانگریس نے بھی ان قیدیوں کو امریکہ میں ٹھہرانے کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔

رپورٹ : ندیم گِل

ادارت : کشور مصطفیٰ