گولان اسرائیل کا حصہ ہے، ٹرمپ
25 مارچ 2019اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دورہ امریکا کے دوران ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں باضابطہ طور پر اس پہاڑی سلسلے پر اسرائیلی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے کئی دہائیوں سے جاری امریکی پالیسی کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ امریکی صدر نے گزشتہ ہفتے ہی اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ وہ 52 برس بعد گولان کے مقبوضہ علاقے پر مکمل اسرائیلی حق تسلیم کرنے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے بین الاقوامی معاہدوں اور ضوابط کو مسترد کیا ہے، اس سے قبل انہوں نے سن 2017 میں یروشلم کو باضابطہ طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کر دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ڈونلڈ ٹرمپ پر ایسا کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ اس امریکی اقدام کا تعلق اسرائیل میں اپریل میں ہونے والے عام انتخابات سے بھی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بینجمن نیتن یاہو غزہ سے ایک راکٹ فائر کیے جانے کے بعد پیر کو اپنا دورہ امریکا ادھورا چھوڑ کر واپس چلے گئے ہیں۔ اس راکٹ حملے میں سات افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اسرائیل وزیر اعظم چار روزہ دورے پر اتوار کو ہی واشنگٹن پہنچے تھے۔
اسرائیل نے سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں شام کے علاقے گولان پر قبضہ کر لیا تھا اور سن 1981 میں اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا تھا، تاہم بین الاقوامی برادری اس اسرائیلی اقدام کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔گولان کے علاقے میں قریب 12 سو مربع کلومیٹر کا اعلان بفر زون کہلاتا ہے، جہاں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات ہے۔
گولان کی پہاڑیوں کو قرب و جوار کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ انہی پہاڑیاں کے چشموں سے بہنے والا پانی دریائے اردن کے ساتھ بحیرہ گلیلی یا جھیل طبریا کو بھرتا ہے۔ یہ جھیل اس سارے علاقے میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ یہ سمندر نما جھیل خطے کی ستر فیصد آبادی کے پینے کے پانی کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ اس میں سے اسرائیل کی کل آبادی کا چالیس فیصد بھی مستفید ہوتا ہے۔