گولڈن گلوب ایوارڈ میں بھارت کی کامیابی
17 جنوری 2009معروف برطانوی ہدایت کاراورفلم ساز ڈینی بوئل کی فلم ’سلم ڈاگ ملینئر‘ کو جہاں ہالی وڈ اور مغربی میڈیا میں بے حد پزیرائی حاصل ہوئی ہے وہاں بھارتی فن کاروں کے ساتھ بھارت میں فلمائی گئی انگریزی ذبان کی اس فلم نے چار گولڈن گلوب ایوارڈ جیت کر بھارت میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس فلم کے لیے مشہور بھارتی موسیقار اے آر رحمان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی کو گولڈن ایوارڈ سے نوازا گیا ہے جو کہ گولڈن گلوب ایوارڈ میں کسی بھی بھارتی کے لیے پہلا ایوارڈ ہے۔ آسکر یا گولڈن گلوب ایوارڈ جیتنا بھارت کی دیرینہ خواہش تھی۔ مگر کیا یہ واقعی ایک بہت بڑا اعزاز ہے؟
بھارتی مصنّف اور سفارت کار وکاس سوا روپ کے ناول ’کیو اینڈ اے‘ پر بنائی گئی اس فلم کی کہانی ایک ایسےغریب بھارتی نوجوان کی کہانی ہے جو کسی طرح ’ہو وانٹس ٹو بی آ ملینئیر‘ کے ہندی ورژن ’کون بنے گا کروڑپتی‘ میں حصّہ لیتا ہے اور دو کروڑ روپے کا انعام جیتنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ جمال نامی اس لڑکے کی کہانی بھارتی معاشرے کی ناہمواریوں اور ’کون بنے گا کروڑپتی‘ کی گلیمرس دنیا کے پیچھے چھپی سازشوں سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔
ہندوستان کے معروف فلم اسٹار امیتابھ بچّن نے اپنے ایک تازہ ترین ویب بلاگ میں ’سلم ڈاگ ملینئر‘ پر تنقید کی ہے۔ واضح رہے کہ امیتابھ بچّن نے سن دوہزار میں حقیقی ’کون بنے گا کروڑپتی‘ کی میزبانی کی تھی اور ان کا یہ پروگرام ٹیلی وژن کی تاریخ کے مقبول ترین پروگراموں میں سے ایک بن گیا۔ فلم میں امیتابھ بچّن کا بحیثیت ’کون بنے گا کروڑپتی‘ کے میزبان کا رول انیل کپّور نے کیا ہے۔
امیتابھ بچّن شروع سے ہی یہ کہتے آ رہے ہیں کہ آسکر ایوارڈز یا گولڈن گلوب ہندوستانی سنیما یا فن کاروں کے لیے کوئی خواب کا درجہ نہیں رکھتا کیوں کہ بھارتی فلموں کا مزاج مختلف ہے اور ان کو پرکھنے کے پیمانے بھی مختلف ہیں۔ امیتابھ تو ہالی وڈ کی طرز پر بھارتی فلمی صنعت کو بالی وڈ کہنے پر بھی ناراضگی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اپنے بلاگ میں امیتابھ نے لکھا ہے کہ مغربی ہدایت کار جب بھی بھارت پر کوئی فلم بناتے ہیں تو وہ بھارتی معاشرے کے برے پہلوؤں کو ہی اجاگر کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی موضوع پر اگر کوئی بھارتی ہدایت کار فلم بناتا تو اس کو کبھی بھی گولڈن گلوب ایوارڈ نہ دیا جاتا۔
مگر دوسری جانب بھارتی میڈیا اور فلم انڈسٹری میں تو اے آر رحمان کے گولڈن گلوب ایورڈ جیتنے کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ نہ صرف یہ بھارت کے مشہور اداکار شاہ رخ خان کو گولڈن گلوب ایوارڈ دینے کے لیے تقریب میں مدعو بھی کیا گیا اور ان کا تعرف ’بالی وڈ کے بادشاہ‘ کے طور پر کرایا گیا۔ واضح رہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب گولڈن گلوب ایوارڈ میں کسی بھارتی اداکار کو ایوارڈ تقسیم کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
بھارت میں ایسے فن کاروں کی کمی نہیں ہے جو آسکر یا گولڈن گلوب کے دیوانے نہیں ہیں۔ انہیں غالباً ہالی وڈ کی فلموں میں کام کرنے سے بھی خاص غرض نہیں ہے۔ امیتابھ بچّن ان میں سے ایک ہیں۔
عامگیریت کے زمانے میں دنیا سکڑ گئی ہے۔ جہاں کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ بھارت جیسے تیسری دنیا کے ممالک مغرب سے اثر لینے کے علاوہ مغرب پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں تو وہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ عالمگیریت میں صرف طاقت ور ثقافتیں ہی کم زور طاقتوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ایک تیسرا مکتبِ فکر بھی ہے جو سمجھتا ہے عالمگیریت تہذیبوں کے انضمام کی وجہ بن رہا ہے۔ کراس اوور سنیما اس کی ایک بہت بڑی مثال سمجھی جاتی ہے اور ’سلم ڈاگ ملینئیر‘ کو اسی کیٹگری میں رکھنا چاہیے۔ مگر کیا واقعی کراس اوور سنیما تہذیبوں کو ملا رہا ہے؟ یہ ہم جانیں گے بھارت کے مشہور فلم ساز، نغمہ نگار، شاعر اور ادیب گلزار سے، ڈائچے ویلے اردو سروس کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں (گلزار صاحب کا مکمل انٹرویر سننے کے لیے آپ نیچے دیے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجیے)
گلزار صاحب کسی تعرف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ نہ صرف ’آندھی‘، ’موسم‘ ’ماچس‘ اور ’ہو تو تو‘ جیسی مشہور بھارتی فلموں کے ڈائریکٹر ہیں بلکہ وہ اس وقت بھارتی فلموں کے صفِ اوّل کے نغمہ نگار بھی ہیں۔ اے آر رحمان کو جس گانے ’جے ہو‘ پر گولڈن گلوب ایوارڈ ملا ہے، وہ گلزار صاحب ہی نے لکھا ہے۔