’گوگل کھلونا حکم مانے گا ہی نہیں منوائے گا بھی‘
23 مئی 2015امریکی پیٹنٹ اینڈ ٹریڈ مارک دفتر کی جانب سے جمعرات کو خرگوش اور ریچھ کی درمیانی شکل کے ان کھلونوں کی تصاویر جاری کی گئیں ہیں، جن کے کانوں میں مائیکرو فون اور آنکھوں میں کیمرے لگے ہوں گے اور ان کے منہ میں نصب اسپیکر جب کہ گردن میں لگی موٹر انہیں آس پاس موجود لوگوں سے بات چیت کرنے میں مدد دے گی۔
ان کھلونوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ خود سے ہم کلام کسی شخص کی آواز کو سن کر نہ صرف اس سے بات کریں گے، بلکہ آواز کی سمت میں گھوم کر اس شخص کی جانب دیکھتے ہوئے آنکھیں بھی چار کر پائیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ کھلونے اپنے اندر پہلے سے ریکارڈ جملے ادا کر کے بات چیت میں حصہ بھی لیں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان کھلونوں میں وائرلیس کمیونیکیشن کی خصوصیت رکھی گئی ہے اور وائی فائی یا بلوٹوتھ کا استعمال کرتے ہوئے یہ بچوں کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر کمرے میں موجود دیگر میڈیا آلات سے رابطہ قائم کر لیں گے۔ یعنی اگر کوئی بچہ یہ کہے کہ مجھے گیت سننا ہے یا فلم دیکھنا ہے، تو یہ کھلونا وہاں موجود کسی کمپیوٹر یا دیگر میڈیا آلے کو یہ ہدایت پہنچا دے گا اور فرمائش کے مطابق گیت یا فلم چلنا شروع ہو جائے گی۔
ان کھلونوں کے حوالے سے جمع کرائے گئے دستاویزات کے مطابق یہ کھلونے کسی ’ذہین ریمورٹ کنٹرول‘ کا کام دیں گے، جس کے ذریعے گھریلو انٹرٹینمنٹ کی مصنوعات اور دیگر خودکار آلات کو کنٹرول کرنا نہایت آسان ہو جائے گا۔
پیٹنٹ دفتر سے جاری کردہ بیان کے مطابق، ’یہ کھلونے کسی انسان، گڑیا، جانور یا خیالی تخلیق سے مشابہ ہو سکتے ہیں۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان کھلونوں میں چہرہ اور آواز شناسی کی خصوصیات بھی رکھی گئی ہیں، جس کے ذریعے یہ خود سے ہم کلام فرد کی آواز سن کر ان کے چہرے کی طرف دیکھنا شروع کر دیں گے اور جواب دیں گے۔
گوگل کی جانب سے اس کھلونے کو موجدوں میں رچرڈ ڈو واؤل اور ڈینیئل امین زادے کا نام دیا گیا ہے۔ کھلونوں کو پیٹنٹ کرنے کے لیے درخواست فروری 2012ء میں دی گئی تھی۔