ہائی کورٹ جج کی دماغی حالت کے معائنےکا حکم، سپریم کورٹ
2 مئی 2017سپریم کورٹ آف انڈیا کے جج جسٹس چنا سوامی اور کلکتہ ہائی کورٹ کے جج سوامی ناتھن کرنن کے درمیان توہین عدالت کے معاملے میں پچھلے کئی ماہ سے ایک قانونی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ اس نے اب ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جگدیش سنگھ کیہر کی صدارت والے سات رکنی بینچ نے صوبہ مغربی بنگال کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر کو حکم دیا کہ وہ جسٹس کرنن کی دماغی حالت کا معائنہ کرنے کے لئے ڈاکٹروں کا ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیں۔ عدالت عظمیٰ نے صوبائی ڈائریکٹر جنرل پولیس کو بھی ہدایت دی ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کروانے کے لئے پولیس کا ضروری بندوبست کریں اور معائنہ رپورٹ آٹھ مئی تک عدالت عظمیٰ میں پیش کی جائے، جس پر عدالت نو مئی کو سماعت کرے گی۔
تاہم سپریم کورٹ کے اس حکم پر جسٹس کرنن نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا،’’یہ غلط،مضحکہ خیز اور قانوناً ناشائستہ ہے۔ یہ حکم مجھے ہراساں کرنے کے لئے دیا گیا ہے اور یہ میرے وقار کے منافی ہے۔ یہ ایک بے گناہ اور(پسماندہ ذات ) دلت کی توہین ہے۔ لہذا میں سپریم کورٹ کے مذکورہ حکم کو کالعدم قرار دیتا ہوں۔‘‘
جسٹس کرنن کا مزید کہنا تھا، ’’اگر ڈائریکٹر جنرل پولیس نے میری مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو میں اسے برخاست کرنے کا حکم سنا دوں گا۔ ‘‘جسٹس کرنن نے ایک قدم آگے بڑھ کر دہلی کے ڈائریکٹر جنرل پولیس کو حکم دیا کہ وہ سپریم کورٹ کے مذکورہ بینچ کے ساتوں ججوں کا میڈیکل ٹیسٹ کرائیں۔
دراصل یہ معاملہ چند ماہ قبل اس وقت شروع ہوا، جب جسٹس کرنن نے وزیر اعظم کے دفتر کو دو صفحات پر مشتمل ایک خط بھیجا، جس میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے تقریباً بیس ججوں کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے۔ اس خط کے بعد سپریم کورٹ نے جسٹس کرنن کے خلاف توہین عدالت کامقدمہ درج کرلیا۔ عدالت عظمیٰ نے ملک کی تمام عدالتوں‘ ٹریبونل اورکمیشنوں کو یہ ہدایت جاری کہ جسٹس کرنن کے جاری کردہ کسی بھی حکم کو قابل عمل نہ سمجھا جائے۔ عدالت عظمی نے جسٹس کرنن سے کلکتہ ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے ان کے تمام انتظامی اور عدالتی اختیارات بھی چھین لئے تھے۔ تاہم جسٹس کرنن کی دلیل تھی کہ سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ ان کے کسی بھی حکم کوکالعدم قرار نہیں دے سکتا کیوں کہ ساتوں جج ملزم ہیں۔
جسٹس کرنن نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ساتوں ججوں کو اپنی عدالت میں حاضر ہونے کا حکم سنایا اور ایئر پورٹ کنٹرول اتھارٹی کو ہدایت دی کہ یہ معاملہ طے ہونے تک جسٹس کیہر اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کو وہ ملک سے باہر سفر کرنے کی اجازت نہ دے۔ معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوگیا جب سپریم کورٹ نے جسٹس کرنن کے خلاف ضمانتی وارنٹ جاری کر دیا اور اس کے جواب میں جسٹس کرنن نے شیڈولڈ کاسٹ/شیڈولڈ ٹرائب قانون کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے سپریم کورٹ کے ساتوں ججوں کے خلاف سمن جاری کر دیا۔
بہر حال یہ معاملہ اس وقت کچھ سلجھتا ہوا دکھائی دیا، جب سپریم کورٹ کے حکم پر جسٹس کرنن 31 مارچ کو عدالت میں حاضر ہوئے۔ لیکن عدالت میں حاضر ہونے سے قبل انہوں نے کہا کہ وہ اُسی وقت معافی مانگیں گے، جب ان کے عدالتی اور انتظامی اختیارات بحال کردیے جائیں گے۔ عدالت عظمیٰ نے ان سے بدعنوانی کے الزامات میں چار ہفتے کے اندر ثبوت جمع کروانے اور یکم مئی کو عدالت میں حاضر ہونے کے لئے کہا۔ جب وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوئے تو اعلیٰ سرکاری وکیل اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے عدالت سے کہا کہ جسٹس کرنن نے ججوں کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ ان کے بیانات سے لگتا ہے کہ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے لہذا اگلی سماعت سے پہلے ان کی میڈیکل جانچ کرانے کی ضرورت ہے۔
عدلیہ امور کے ماہر اشوک باگڑیا کا کہنا ہے کہ ایسے حالات سے نمٹنے کے لئے بھارتی آئین نے ججوں کے مواخذے کے لئے پارلیمان کو مجاز بنایا ہے تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے میں از خود مداخلت کر کے ایک نئی بحث شروع کرد ی ہے۔ اس پورے معاملے نے بھارتی عدالتی نظام کو زبردست نقصان پہنچایا ہے اور ججوں کا امیج بھی خراب ہوا ہے۔
ان کامزید کہنا تھاکہ ایسے وقت میں جب کہ ججوں کی تقرری کے مسئلے پر عدلیہ اور انتظامیہ میں رسہ کشی چل رہی ہے، اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ جسٹس کرنن واقعے کے بعد عدلیہ میں انتظامیہ کی دخل اندازی کا راستہ کھل جائے گا۔
اشوک باگڑیا کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اگلے ماہ جسٹس کرنن کی سبکدوشی کے ساتھ ہی یہ معاملہ سرد خانے میں چلا جائے لیکن اس واقعے نے بھارتی عدلیہ کے سامنے جو سوالات پیدا کردیے ہیں ان پر سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے مسائل پیدا نہ ہوں۔