1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہابرماس کے سماجی نظریات

22 جون 2009

تاریخ کے صفحے جرمنی کے مشہور اور معروف فلسفیوں کے نظریات اور کارناموں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 16 ویں صدی سے آج تک مغربی فلسفے کے شعبے میں جرمن دانشوروں کے نظریات اور خیالات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/IWRM
ہابرماس کی کتابوں نے دنیا بھر کے فکری حلقوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ رکھی ہےتصویر: ullstein bild - Meller Marcovicz

دانش اورعقل پرمبنی سماجی نظریات کسی بھی معاشرے میں بہتر روایات اور تبدیلی کی عمل کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح سماجی ترقی کا عمل آگے بڑھتا ہے۔ اس زمرے میں فلسفی اور دانشور سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سماجی تبدیلی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ فلسفیوں کی قائم کردہ یہ علمی روایت انسانی ترقی کے لئے کتنی ضروری ہے۔

دانش کی اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہابرماس نے بھی سماجی نظریات پیش کئے۔ ان کے ان نظریات میں سب سے اہم نظریہ ’’عالمگیریت کے دور میں مختلف ثقافتوں اور ان کے مابین تمدنی خیالات کا تبادلہ‘‘ ہے۔ یہی نظریہ سماجی علوم کے بڑے بڑے بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں گذشتہ چند عشروں سے بحث کا ایک اہم موضوع چلا آ رہا ہے۔

ہابرماس کے نظریات میں ایک اور اہم تذکرہ "عوامی دائرہ" یا پبلک سفیئر کا ہے۔"عوامی دائرے" کی اصطلاح سے ان کی مراد دنیا بھر کے ممالک کے عوام کا اپنی حکومتوں اور ان کی پالیسی پر عقلی حوالوں سے بحث و مباحثہ کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ریاست اپنے فرائض درست طور سے انجام نہیں دے رہی ہیے اور عوامی شعور کی صحیح طریقے سے نمائندگی نہیں کر رہی ہے، تو عوامی دائرے میں رہتے ہوئے ریاست کے غلط یا غیر عوامی اقدامات پر بحث ہونی چاہئے اور پھر عوام کو ایک مشترکہ موقف پر اکٹھا ہونا چاہئے، تاکہ سماجی و ریاستی ترقی اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کے لئے مشترکہ عوامی شعور کو بیدار کیا جا سکے۔

Jürgen Habermas Flash-Galerie
ہابرماس کے نظریات میں ایک اور اہم تذکرہ "عوامی دائرہ" یا پبلک سفیئر کا ہےتصویر: AP

ہابرماس کی کتابوں نے دنیا بھر کے فکری حلقوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ رکھی ہے۔ ہابرماس نے بیس سے زیادہ کتب لکھی ہیں، جن میں سے مشہور ترین ہیں: دی تھیوری آف کمیونیکیٹو ایکشن ، دی فلاسفیکل ڈسکورس آف ماڈرنیٹی اور دی سٹرکچرل ٹرانسفورمیشن آف پبلک سفیئر ۔ اس کے علاوہ ہابرماس نے بے تحاشہ موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، جنہیں مضامین کی شکل میں مختلف فکری اور فلسفیانہ رسائل میں شائع کیا گیا۔

80ء کی دہائی میں ہابرماس اور مابعد جدیدیت یا پوسٹ ماڈرن تحریک کے ایک فرانسیسی مفکر ژاک دریڈا کے درمیان علمی تنازعات کا آغاز ہوا۔ ان علمی و فکری تنازعات کے دوران ہابرماس نے ڈریڈا کے نظریات کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ ان سے اخلاقی اور سماجی مسائل کا حل تقریبا ناممکن ہے۔ ہابرماس کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے دریڈا نے اپنا وہ مشہور زمانہ جملہ کہا تھا کہ، ’’وہ لوگ جنہوں نے مجھ پر فلسفے کو لسانیات کی پیچیدگیوں اور منطق کی پرپیچ راہوں تک موقوف کر دینے کا الزام لگایا ہے، انہوں نے دراصل یہ پوری کوشش کی ہے کہ وہ میری تصانیف کو اپنے مطالعے میں نہ لا ئیں تاکہ انہیں میرے نظریات کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔‘‘

دریڈا اور ہابرماس کے مابین خیالات اور الزامات کے تبادلے کا یہ سلسلہ تقریباً دس سال تک جاری رہا، جس کے بعد ان میں دوستی ہوگئی اور ان دونوں نے مختلف موضوعات پر ساتھ مل کر فکری کام کیا۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں کے ان دو اہم فلسفیوں میں یہ دوستی سن 2004ء میں دریڈا کی وفات تک قائم رہی۔

جائزہ : انعام حسن

ادارت : امجد علی