ہاتھ کاٹنے والے لڑکے کو قصور وار قرار دینے والا امام گرفتار
17 جنوری 2016لاہور سے جنوب کی جانب کوئی 125 کلومیٹر دور حجرہ شاہ مقیم کے نواح میں ایک مسجد میں پیش امام شبیر احمد نے وہاں لوگوں سے کہا تھا کہ وہ کون ہے جو پیغمبر اسلام سے محبت نہیں کرتا، تو اس 15 سالہ لڑکے نے یہ سوال صحیح نہیں سنا تھا اور غلطی سے اپنا ہاتھ بلند کر دیا تھا۔ اس پر امام نے تمام افراد کے سامنے اسے توہین رسالت کا قصور وار قرار دے دیا تھا۔ اس کے فوراﹰ بعد یہ لڑکا اپنے گھر گیا اور اس نے اپنا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد اس گاؤں میں اس بچے کی خوب داد و تحسین کی گئی تھی۔ ہاتھ کاٹنے پر شاباش دینے والوں میں اس لڑکے کا والد بھی شامل تھا۔ اس لڑکے کے والد نے پولیس سے بھی کہا تھا کہ اسے اپنے بیٹے پر فخر ہے اور بطور والد وہ نہیں چاہتا کہ مسجد کے امام کو گرفتار کیا جائے۔
مقامی تھانے کے سربراہ نوشیر علی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس امام کو اتوار سترہ جنوری کے روز حراست میں لے لیا گیا۔ نوشیرعلی نے بتایا کہ مسجد کے امام کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔
اس پولیس افسر نے بتایا، ’’مساجد کے ایسے جاہل آئمہ کو کسی بھی صورت تقاریر کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی گرفتاری قومی ایکشن پلان کے تحت عمل میں آئی ہے، جو ملک میں نفرت انگیزی اور تشدد کو ہوا دینے والی تقریروں کو ہر حال میں روکنے کا کہتا ہے۔‘‘
توہین مذہب یا توہین رسالت پاکستان میں ایک انتہائی متنازعہ اور حساس معاملہ ہے۔ پاکستان میں متعدد ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں اسلام، قرآن یا پیغمبر اسلام کی مبینہ توہین کے الزام میں مشتعل عوامی ہجوم مختلف افراد کے قتل کر مرتکب ہوئے تھے۔
پاکستان میں مذہب، قرآن یا رسالت کی توہین سے متعلق موجودہ قانون توہین کی واضح تعریف کیے بغیر موت کی سزا تجویز کرتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس قانون کے تحت سنائی گئی موت کی سزاؤں پر کبھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں اس قانون کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون عموماﹰ غلط استعمال ہوتا ہے اور لوگ اپنے ذاتی جھگڑوں کو نمٹانے کے لیے اس قانون کا استعمال کرتے ہیں۔