ہالینڈ سے ترک وزیر کی بےدخلی کے بعد مظاہرے، کشیدگی میں اضافہ
12 مارچ 2017ہالینڈ کے شہر دی ہیگ سے اتوار بارہ مارچ کے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس وقت ترکی اور یورپی یونین کے رکن ملک ہالینڈ کے مابین سیاسی اور سفارتی کشیدگی اتنی زیادہ ہو گئی ہے، جتنی گزشتہ کئی عشروں میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
اس کشیدگی کی وجہ یہ بنی کہ ترکی میں اپریل کے وسط میں ایک آئینی ریفرنڈم ہو رہا ہے، جس میں ترک ووٹروں سے ملک میں صدارتی نظام جمہوریت متعارف کرانے کے بارے میں رائے لی جائے گی۔ جرمنی اور ہالینڈ میں چونکہ لاکھوں کی تعداد میں ترک نژاد تارکین وطن آباد ہیں، جو ترک شہری ہونے کی وجہ سے اس ریفرنڈم میں ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں، اس لیے ترک حکومت جرمنی اور اس کے ہمسایہ ملک ہالینڈ میں کئی ایسی سیاسی ریلیاں منعقد کرنے کا ارادہ رکھتی تھی، جن سے ترک حکومت کے کئی وزراء کو بھی خطاب کرنا تھا۔
ہالینڈ نے ترک وزیر خارجہ کے طیارے کو لینڈنگ سے روک دیا
ترکی اور جرمنی کے کشیدہ تعلقات، تین سوال تین جواب
جرمنی میں ہیمبرگ کی شہری انتظامیہ نے ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو کو ایک جلسے سے خطاب کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، جس پر انقرہ حکومت شدید ناراض تھی اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ آج کا جمہوری جرمنی ابھی تک ’نازی دور کے طریقہ ہائے کار‘ پر عمل پیرا ہے۔ اس مماثلتی بیان پر جرمنی میں شدید تنقید کی گئی تھی اور یہ صورت حال برلن اور انقرہ حکومتوں کے مابین شدید کشیدگی کا سبب بن گئی تھی۔
ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم میں بھی ترک باشندوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرنا چاہتے تھے لیکن کل ہفتہ گیارہ مارچ کے روز ڈچ حکومت نے ترک وزیر کو لے کر آنے والی ایک پرواز کو اپنے ہاں اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس پر انقرہ اور دی ہیگ کے مابین بھی وہ کشیدگی بہت زیادہ ہو گئی تھی، جو اسی معاملے کی وجہ سے چند دن پہلے سے پائی جا رہی تھی۔
ترکی کا ریفرنڈم، آسٹریا اور جرمنی میں سیاسی مہم میں مشکلات
ترکی اور جرمنی کی کشیدگی، ’اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘
پھر ترکی میں حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ روٹرڈیم میں ترک باشندوں کے ایک اجتماع سے اگر وزیر خارجہ چاوش اولو نہیں تو خاندانی امور کی ترک خاتون وزیر فاطمہ بتول سایان کایا خطاب کریں گی۔ یہ ترک وزیر ہالینڈ پہنچ بھی گئی تھیں لیکن حکام نے انہیں بھی جلسے سے خطاب کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
اس کے بعد روٹرڈیم میں جمع ترکی میں صدر ایردوآن کی سیاسی جماعت کے حامی ترک شہریوں نے مظاہرے شروع کر دیے، جن پر قابو پانے کے لیے ڈچ پولیس کو اپنے گھڑ سوار دستوں اور واٹر کینن یا پانی کی تیز دھار کا استعمال بھی کرنا پڑا۔
اسی دوران روٹرڈیم شہر کی انتظامیہ نے ترک خاتون وزیر فاطمہ بتول سایان کایا کو نہ صرف وہاں ریلی سے خطاب کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا بلکہ انہیں ہالینڈ سے بے دخل کر دینے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ اس پر ڈچ پولیس نے اپنی حفاظت میں انہیں ہالینڈ کی جرمنی کے ساتھ سرحد تک لا کر واپس جرمنی بھیج دیا۔
روٹرڈیم میں شروع ہونے والے ترک باشندوں کے مظاہرے وہاں ترکی کے قونصل خانے کے باہر شروع ہوئے اور اس بارے میں ڈچ حکومت نے کہا کہ اس نے انقرہ حکومت کو مطلع کر دیا تھا کہ حکومت اس ریلی کی اجازت نہیں دے سکتی، جس کے انعقاد کا مطلب یہ ہوتا کہ ہالینڈ کی سلامتی اور امن عامہ پر سمجھوتہ کر لیا گیا ہے۔
اجلاس منسوخ کرنے پر جرمنی پر دوہرے معیار کا الزام، ترکی
ترک سياست دانوں کی جرمنی ميں ريلياں بند
بعد ازاں ایک بیان میں ڈچ حکام نے کہا، ’’اس معاملے کا کوئی قابل قبول اور بہتر حل تلاش کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ اس سلسلے میں ترک حکام کی طرف سے جو زبانی حملے کیے گئے، وہ ہالینڈ کے لیے قطعی ناقابل قبول ہیں۔‘‘
ڈچ حکام نے مزید کہا، ’’ترک خاتون وزیر کایا کو بار بار بتا دیا گیا تھا کہ ہالینڈ میں انہیں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا، اس لیے وہ ہالینڈ نہ آئیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کا ہالینڈ آنا ایک بہت ہی غیر ذمے دارانہ اقدام تھا۔‘‘
جرمنی میں تارکین وطن کے طور پر قریب 14 لاکھ اور ہالینڈ میں قریب چار لاکھ ایسے ترک نژاد باشندے آباد ہیں، جو سولہ اپریل کو اپنے آبائی وطن میں ہونے والے ریفرنڈم میں ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں اور ترک حکومتی وزراء اسی لیے ایسے ترک باشندوں کے سیاسی اجتماعات سے خطاب کرنا چاہتے تھے۔ مجموعی طور پر جرمنی اور ہالینڈ میں ترک نژاد باشندوں کی تعداد قریب پانچ ملین ہے، جن میں سے بہت سے جرمن یا ڈچ شہری بھی ہیں۔
دریں اثناء ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ ہالینڈ کی جانب سے روٹرڈیم میں ایک ترک ریلی کو روکنے کے حوالے سے ڈچ حکومت کے اقدام کا سخت جواب دیا جائے گا۔ ڈچ حکومت کے فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے ترک وزیر اعظم نے اسے ’جمہوری اقدار، آزادی رائے اور انسانی حقوق کے منافی‘ قرار دیا۔