ہانگ کانگ: حکومت اور مظاہرين کے مابين ابتدائی مذاکرات
7 اکتوبر 2014جہوريت کے حق ميں حکومت مخالف مظاہرے کرنے والے طلباء کے نمائندوں اور سرکاری اہلکاروں کے مابين ابتدائی بات چيت پير کی رات ہوئی، جس ميں آئندہ کے باقاعدہ مذاکرات کے ليے اصول و ضوابط طے کيے گئے۔ مذاکرات کے بعد حکومت کے ’انڈر سيکرٹری فار کانسٹيٹيوشنل اينڈ مين لينڈ افيئرز‘ لاؤ کونگ واہ نے بتايا کہ فريقين نے مذاکرات کے ليے تمام اہم امور پر اتفاق کر ليا ہے۔ انہوں نے رپورٹروں سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’يہ ملاقات کامياب رہی اور اس ميں پيش رفت ہوئی ہے۔‘‘
دوسری جانب اگرچہ پير کے روز حکومت کے ساتھ غير رسمی بات چيت کے آغاز پر ہی مظاہرين نے سرکاری عمارات کے باہر کھڑی کردہ رکاوٹيں ہٹانا شروع کر دی تھيں تاہم انہوں نے يہ بھی واضح کر ديا ہے کہ مطالبات پورے ہونے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہانگ کانگ فيڈريشن آف اسٹوڈنٹس کے سربراہ آلیکس چاؤ نے کہا، ’’يہ صرف اس وقت ختم ہو گا، جب حکومت کوئی ٹھوس وعدہ کرے، بصورت ديگر لوگوں کو پیچھے ہٹنے کے ليے قائل کرنا مشکل ہو گا۔‘‘
يہ امر اہم ہے کہ ہانگ کانگ ميں جمہوريت نواز مظاہرين کا مطالبہ ہے کہ ان کے شہر کے ليے بيجنگ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ رہنما ليونگ چن ينگ اپنے عہدے سے مستعفی ہوں اور چينی انتظاميہ ہانگ کانگ کے عوام کو 2017ء ميں ہونے والے انتخابات ميں اپنی مرضی کا رہنما چننے کا اختيار دے۔ اس کے برعکس بیجنگ میں چينی انتظاميہ پہلے اميدواروں کی جانچ پڑتال کرنا چاہتی ہے۔
ہانگ کانگ ميں گزشتہ کئی دنوں سے جاری احتجاج اور دھرنوں کے اس سلسلے نے عمومی کاروبار کو بری طرح متاثر کيا ہے۔ ہانگ کانگ ريٹيل مينجمنٹ ايسوسی ايشن کی طرف سے بتايا گيا ہے کہ شہر کے متاثرہ حصوں ميں قائم بڑے بڑے اسٹورز ميں يکم تا پانچ اکتوبر کاروبار ميں تيس سے لے کر پينتاليس فيصد تک کی کمی ريکارڈ کی گئی۔ HSBC اور Markit Group کی طرف سے آج منگل کے روز جاری کردہ ايک سروے کے مطابق تازہ مظاہروں کے آغاز سے قبل ہی شہر ميں چند کاروبار مسائل کا شکار تھے۔ اس کے علاوہ عالمی بينک کی جانب سے بھی يہ کہا جا چکا ہے کہ احتجاج سے ہانگ کانگ کی معيشت متاثر ہو رہی ہے جبکہ بيجنگ پر اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہيں۔