ہانگ کانگ کے الیکشن، چین مخالف سیاست دان بھی کامیاب
5 ستمبر 2016ہانگ کانگ کی قانون ساز کونسل (LegCo) کے لیے الیکشن کا انعقاد چار ستمبر بہ روز اتوار کو کیا گیا، جس میں ریکارڈ دو اعشاریہ دو ملین ووٹرز نے حصہ لیا۔ ستّر نشستوں والی اس کونسل کے الیکشن کے نتائج کا باقاعدہ سرکاری اعلان پیر کی شام تک متوقع ہے۔
اس الیکشن میں اٹھاون فیصد کا ریکارڈ ٹرن آؤٹ نوٹ کیا گیا ہے۔ سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں یہ شرح 45.2 فیصد رہی تھی۔ ناقدین کے خیال میں ووٹرز کی ایک بڑی تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے چین کو ایک اہم پیغام دیا ہے۔
اس الیکشن میں کامیاب ہونے والے تئیس سالہ نیتھن لا 2014ء میں جمہوریت کے فروغ کے لیے منعقد ہوئی ریلیوں میں پیش پیش تھے۔ لا اور ان کی نئی سیاسی جماعت ہانگ کانگ کی آزادی کی خاطر ایک عوامی ریفرنڈم کے حق میں ہیں۔
اس پارٹی کا مؤقف ہے کہ عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ چین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا علیحدگی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ لا نے الیکشن میں کامیابی کے بعد دہرایا، ’’میرا خیال ہے کہ ہانگ کانگ واقعی تبدیلی چاہتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ کو چین سے زیادہ خودمختاری ملنا چاہیے۔
سیاسی تجزیہ نگار ولی لام کا کہنا ہے کہ اس الیکشن کے نتائج سے چین کو ایک واضح پیغام ملا کہ ہے ہانگ کانگ کی نئی نسل اب سیاسی معاملات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے، ’’بیجنگ ان نتائج سے ناخوش ہو گا۔ یہ امکان ہے کہ اسے بنیاد پر کر چینی حکومت ہانگ کانگ پر پابندیاں سخت کر دے۔‘‘
ہانگ کانگ اور بیجنگ دونوں کے ہی حکام اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ ہانگ کانگ کی آزادی کا نظریہ غیر آئینی ہے۔ اسی لیے ہانگ کانگ کے اس الیکشن میں ایسی متعدد آوازوں کو دبا دیا گیا تھا جو کھلے عام آزادی کا نعرہ لگاتی رہی ہیں۔ تاہم کچھ ایسے مقامی امیدواروں کو اس الیکشن میں حصہ لینے دیا گیا تھا، جنہوں نے اپنی انتخابی مہم میں چین سے آزادی کی بات کی تھی۔
ہانگ کانگ کی Youngspiration سیاسی جماعت کے ایسے ہی ایک کامیاب امیدوار Yau Wai-Ching نے کہا ہے کہ خودمختاری کی بات کرنا ہانگ کانگ کے عوام کا حق ہے۔ اسی پارٹی کے ایک اور امیدوار Baggio Leung ، جو متوقع طور پر کامیاب ہو جائیں گے، کھلے عام آزادی کی بات کرتے ہیں۔