ہر قسم کے وسائل کم ہو رہے ہیں: علی ترہونی
19 جون 2011لیبیا میں باغیوں کے تیل اور مالیاتی معاملات کے لیے مقررچیف علی ترہونی کا کہنا ہے کہ مالی مسائل کے تناظر میں مغرب مثبت انداز میں پیش رفت سے قاصر ہے۔ ترہونی کے مطابق ان کے پاس ہر طرح کے وسائل میں کمی شروع ہو گئی ہے جس سے ان کے بقول مرتے لوگوں کو بچانا مشکل ہو چکا ہے لیکن مغرب اس مناسبت سے ذرا بھی فکر مند نہیں ہے۔ ترہونی کا واضح طور پر کہنا تھا کہ اگر فوری طور پر مالی معاملات کی جانب توجہ نہ کی گئی تو تمام عسکری، مالی، سفارتی جدوجہد انجام کار مکمل ناکامی پر ختم ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار ترہونی نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کیا۔
ایسے امکانات بھی سامنے آ گئے ہیں کہ باغیوں کے قبضے میں مشرقی علاقے میں تیل کی پیداوار کا عمل نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق علی ترہونی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیبیا کے باغی شدید مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں ترہونی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان سے مغربی اقوام نے مالی معاملات میں وسعت دینے کے بڑے وعدے کیے تھے لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔
ترہونی نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ مغرب کی جانب سے مالی وسائل لیبیا کے اثاثوں کو منجمد کرکے دیے جانے تھے لیکن ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ ترہونی نے مغربی اقوام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ باغیوں اور لیبیا کی اندرونی صورت حال کے حوالے سے ہونے والی کانفرنسوں اور میٹنگوں میں مغربی ممالک کے نمائندے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن عملی شکل میں اس کا حاصل کچھ بھی نہیں ہے۔
دوسری جانب لیبیا میں جاری نیٹو مشن کے اتحادیوں کی سوچ میں بھی دراڑیں پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ کچھ اتحادی اب تین ماہ سے جاری اس مشن کو ایک تھکا دینے والا عمل خیال کرنے لگے ہیں۔ امریکی سفارتکاروں کا خیال ہے کہ نیٹو کے یورپی اتحادی پوری طرح سے اس مشن میں شرکت سے ابھی تک قاصر ہیں۔
گزشتہ ہفتوں کے دوران باغیوں نے خاصی اہم پیش قدمی کا سلسلہ جاری رکھا تھا لیکن طرابلس کی جانب ان کا سفر اس کے باوجود سست خیال کیا جاتا ہے۔ اس دوران نیٹو کے جنگی طیاروں کی بمباری کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن طرابلس ہنوز دور کی مسافت ہے۔ باغی اپنے ملک کے قبائلیوں کے ساتھ بات چیت بھی جاری رکھے ہوئے ہیں تا کہ وہ اپنی افرادی قوت میں کسی طور خاطر خواہ اضافہ کر سکیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: شادی خان سیف