ہزاروں پناہ گزین اپنے وطنوں کی جانب لوٹ گئے
1 جولائی 2016جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی یونانی دارالحکومت ایتھنز سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یونان میں پھنسے تارکین وطن اور مہاجرین کی اپنے وطنوں کی جانب واپسی کے رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن
علی حیدر کو جرمنی سے ڈی پورٹ کیوں کیا گیا؟
یورپی یونین اور ترکی کے مابین مہاجرین کی واپسی کا متنازعہ معاہدہ طے ہونے کے بعد ترکی سے یونانی جزیروں تک پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کافی کم ہو چکی ہے۔ بلقان کی ریاستوں کی جانب سے پناہ گزینوں کے لیے اپنی ملکی سرحدیں بند کرنے کے بعد ان کے لیے شمالی اور مغربی یورپ پہنچنے کی امیدیں تقریباﹰ ختم ہو چکی ہیں۔
اس صورت حال میں یونان میں موجود ہزاروں مہاجرین اور تارکین وطن کے پاس یونان ہی میں سیاسی پناہ دینے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے یہ ہزاروں تارکین وطن یونان میں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد، بے روزگاری، رہائش اور دیگر سہولیات کی کمی کے باعث اس یورپی ملک میں اپنے مستقبل سے خاصے مایوس ہو چکے ہیں۔ اسی وجہ سے ان میں واپسی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کا کہنا ہے کہ وطن واپسی کی خواہش رکھنے والے تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ شمالی افریقی ممالک سے ہے۔ ادارے کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک 3245 پناہ گزینوں نے آئی او ایم کو اپنی وطن واپسی میں تعاون کرنے کی درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں۔
ایتھنز میں آئی او ایم کی خاتون ترجمان کرسٹینا نکولاؤ نے ڈی پی اے کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے وطن واپسی پروگرام میں درخواست دینے والے زیادہ تر تارکین وطن ایسے ہیں ’جن کی یونان میں دی گئی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں‘۔
آئی او ایم سیکورٹی حکام کے تعاون سے مہاجرین کی محفوظ وطن واپسی یقینی بناتا ہے۔ علاوہ ازیں وطن واپس لوٹنے والے پناہ گزینوں کو محدود مالی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ آئی او ایم کے مطابق وطن واپس جانے والے ہر تارک وطن کو جہاز میں سوار ہونے سے قبل 500 یورو دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے ملک واپس جا کر اپنی زندگی دوبارہ شروع کر سکیں۔
رپورٹوں کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کئی درجن تارکین وطن نے اپنے طور پر یونان سے واپس ترکی جانے کی کوشش بھی کی ہے۔ یونانی کوسٹ گارڈز کے ایک افسر نے ڈی پی اے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ’’بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انسانوں کے اسمگلروں نے ان (ترکی واپس جانے کی کوشش کرنے والے) تارکین وطن سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں بحیرہ اسود کے راستوں سے وسطی یورپی ممالک تک پہنچا دیں گے۔‘‘