ہزارہ برادری: خوف، حوصلہ اور خود اعتمادی
ہزارہ برادری بلوچستان میں آباد ایک نسلی گروہ ہے۔ انتہا پسندوں کے حملوں کہ وجہ سے اس کمیونٹی کے لوگ اونچی دیواروں کے پیچھے چُھپنے پر مجبور ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ثقافت انتہائی خود اعتمادی سے پیش کرتے ہیں۔
خریداری بھی پہرے میں
ہزارہ برادری کے تاجر کوئٹہ کی مرکزی مارکیٹ کی جانب جا رہے ہیں۔ انہیں اس مقصد کے لیے ایک چیک پوائنٹ سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کے رہائشی علاقے کے گرد ایک بڑی دیوار تعمیر کی گئی ہے تاکہ وہ عسکریت پسندوں کے حملوں سے محفوظ رہیں۔ مارکیٹ آتے جاتے وقت فوجی ان کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں۔
پاکستان سے محبت
ہزارہ برادری افغانستان کا ایک نسلی گروہ ہے لیکن ایک ملین کے قریب ہزارہ افراد پاکستان میں آباد ہیں اور اسی ملک کو وہ اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ سینکڑوں ہزارہ افراد فوج میں ملازمت کرتے ہیں جب کہ ان کے علاقے میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی اکثریت کوئٹہ کے ہزارہ اور ماری آباد ٹاؤن میں رہائش پذیر ہے۔
الفاظ کی طاقت
نوید علی کے سینے پر ’اپنی طاقت پر اعتماد کرو‘ لکھا ہوا ہے۔ اس کا ایک مطلب بیرونی حملوں کا ڈٹ کا مقابلہ کرنا بھی ہے۔ تئیس سالہ نوید ہزارہ ٹاؤن میں باڈی بلڈنگ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ورزش نہ صرف صحت کے لیے کرتے ہیں بلکہ یہ انہیں منشیات سے دور رہنے کی طاقت بھی فراہم کرتی ہے۔
دفاع لیکن پرامن
ہزارہ جب بھی اپنے مطالبات اور حفاظت کے لیے احتجاج کرتے ہیں، پرامن طریقے سے ہی کرتے ہیں۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی پرامن دھرنے اور احتجاج کی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔ صوبائی پارلیمان میں ان کی دو سیٹیں ہیں۔ اس کُنگفو ماسٹر مبارک علی کے مطابق ہزارہ برادری کی ’امن سے محبت کم نہیں‘ ہو گی۔
محاصرے میں ناشتہ
تیس سالہ وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن سردار سہیل کا اپنی والدہ کے ہمراہ ناشتہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم کئی برسوں سے محاصرے والی صورتحال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہماری حفاظت کے لیے اردگرد چیک پوائنٹس بنائی گئی ہیں لیکن اس کی وجہ سے آپ دیگر علاقوں سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں۔‘‘
پستول اور خدا پر بھروسہ
ہزارہ نسل کا تعلق منگولیا کے خطے سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے نین نقش اور چہروں کی وجہ سے دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ عسکریت پسند اسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سردار سہیل گھر سے نکلتے وقت ہمیشہ پستول اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ سردار سہیل کے مطابق ان کا ایمان بھی انہیں تقویت دیتا ہے اور وہ گھر سے رخصتی کے وقت ہمیشہ اپنی والدہ کے ہاتھ چومتے ہیں۔
ثقافتی سرگرمیاں
کوئٹہ میں ہزارہ برادری اپنی تاریخ، موسیقی اور ثقافتی سرگرمیوں کو اہمیت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ جون کے اختتام پر ایسے ہی ایک ثقافتی میلے کا آغاز بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کیا۔ وہ اور دیگر شرکا ہزارہ افراد کی روایتی ثقافتی ٹوپیاں پہنے ہوئے ہیں۔
روایات نئی نسل کے حوالے
اسی روایتی میلے میں ایک چھوٹی سی لڑکی کڑھائی کا کام کر رہی ہے۔ لیکن روایتی لباس کے ساتھ وہ خود بھی ایک آرٹ کا نمونہ لگ رہی ہے۔
تعلیم میں سرمایہ کاری
محمد آصف کی نظر میں تعلیم سب سے اہم ہے۔ وہ ماری آباد میں ایک سکول چلاتے ہیں۔ بچے صبح کی دعا کے لیے جمع ہیں۔ محمد آصف کے مطابق وہ نوجوانوں کے لیے معاشرے میں بہتر مواقع پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ایک نظر مستقبل پر
ماری آباد کے اسکول کی اس بچی کے مستقبل کا انحصار صرف اور صرف ان پر ہونے والے حملوں کی بندش پر ہے۔ ہزارہ کمیونٹی کی حفاظت اور آزادی ہی ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔