1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہزارہ شیعہ برادری کو ’نسل کشی‘ کا سامنا، عبدالخالق ہزارہ

9 مارچ 2013

پاکستان میں انتہا پسند سنی گروپوں کی جانب سے شیعہ کمیونٹی کو مختلف بم حملوں میں ٹارگٹ کر کے ہلاک کرنے کے بعد اب خاص طور پر ہزارہ شیعہ برادری کی لیڈر شپ اس عمل کو ’نسل کشی‘ کا نام دینے لگی ہے۔

https://p.dw.com/p/17uCT

پاکستان میں شیعہ آبادی کی مختلف تنظیموں کی جانب سے بم دھماکوں میں شیعہ شہریوں کی ہلاکت کو مخصوص تناظر میں دیکھا جانے لگا ہے اور اسے ’نسل کشی‘ سے تعبیر کرنے کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس مناسبت سے لگائے جانے والے الزام کے سلسلے میں ایک انتہا پسند سنی تنظیم کے سکیورٹی ایجنسیوں سے مبینہ روابط اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکمران سیاسی جماعت کے ساتھ ممکنہ تعلق کو بھی اٹھایا جا رہا ہے۔

بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں شیعہ کمیونٹی کو ٹارگٹ کر کے ہلاک کرنے کی ذمہ داری کالعدم انتہا پسند گروپ لشکر جھنگوی مسلسل قبول کر رہا ہے۔ یہ گروپ القاعدہ سے بھی وابستگی رکھتا ہے۔ امریکا اس گروپ کو ایک بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔ یہ تاثر تقویت پکڑ چکا ہے کہ لشکر جھنگوی کے علاوہ کچھ اور جہادی گروپ پاکستانی صوبے پنجاب میں اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔

بلوچستان کی ہزارہ برادری کی سیاسی جماعت ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ عبدالخالق ہزارہ کا خیال ہے کہ حکومت میں اس کی تمنا ہی نہیں کہ وہ ایسے دہشت گردوں کے خاتمے کی جانب عملی قدم اٹھائے اور ملک کی سکیورٹی ایجنسیاں ان کی ہمدرد ہیں کیونکہ یہی دہشت گرد گروپ ان ایجنسیوں کو مختلف معاملات کے آپریشن میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔ عبدالخالق ہزارہ کا کہنا ہے کہ ہزارہ شیعہ برادری کو نسل کشی کا سامنا ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے چہروں کے وسطی ایشیائی خد و خال کی بنیاد پر واضح انداز میں پہچانے جاتے ہیں۔

عبدالخالق ہزارہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کو اس بات کا کامل یقین ہے کہ پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے انتہا پسند گروپوں کو ختم کرنے کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ہزارہ کے مطابق یہ سکیورٹی ایجنسیاں ان انتہا پسند گروپوں کے کارکنوں کو بھارت یا افغانستان میں استعمال کرنے کا بھی سوچتی ہیں۔

Trauer und Protest nach Bombenanschlag in Quetta Pakistan
کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی نے زوردار مظاہروں کا انتظام کیا تھاتصویر: BANARAS KHAN/AFP/Getty Images

پاکستان کی شیعہ آبادی کے خلاف منظم حملوں کے تناظر میں قومی بحث کا عمل سیاسی پلیٹ فارموں پر زور پکڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس عمل میں کراچی میں حال ہی میں ہونے والے حملے کے بعد مزید شدت پیدا ہوئی ہے۔ کراچی کے علاقے عباس ٹاؤن کی شیعہ مسجد پر ہونے والے حملے میں چار درجن ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ رواں برس مختلف دہشت گردانہ واقعات میں تین سو کے قریب شیعہ شہریوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔

اسی تناظر میں یہ بھی اہم ہے کہ بلوچستان اور اسلام آباد میں پولیس حکام نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ انٹیلیجنس اداروں نے مختلف انتہا پسند گروپوں کے زیر حراست افراد کو رہا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ ان ذرائع کے مطابق انٹیلیجنس اداروں کے توسط سے رہائی پانے والے تمام افراد کا تعلق لشکر جھنگوی سے یقینی طور پر نہیں تھا۔ پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں یہ تاثر عام ہے کہ لشکر جھنگوی اور دوسرے انتہا پسند گروپ سرعام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم وفاقی حکومت کی جانب سے پنجاب حکومت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ انتہا پسند سنی گروپوں کی سرپرستی کرتی ہے۔

ah/mm(AP)