ہزارہ نسل کے تیرہ افراد شمالی افغانستان میں قتل
6 ستمبر 2015ان ہزارہ باشندوں کو دو بسوں سے اتارنے کے بعد قطار میں کھڑا کر کے انتہائی قریب سے گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ یہ لرزہ خیز واردات افغانستان کے شمالی صوبے بلخ کے ضلع زری میں ہوئی۔ ہلاک کیے گئے تمام افراد مرد تھے۔ کسی گروپ نے اِن ہلاکتوں کی ذمہ داری ابھی تک قبول نہیں کی ہے لیکن ماضی میں طالبان شدت پسند ایسے خونی واقعات میں ملوث رہ چکے ہیں۔ اب تو افغانستان کے چند علاقوں میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادی بھی سرگرم ہیں اور اِسی باعث بعض حلقے اُن پر بھی انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔
بلخ صوبے کے ضلع زری کے انتظامی افسر جعفر حیدری کے مطابق ہزارہ نسل کے مسافروں کو بسوں سے اتار کر حملہ آوروں نے ایک قطار میں کھڑا کر کے قتل کیا۔ حیدری کے مطابق دونوں بسوں میں سے ایک پر سوار ہزارہ نسل کی ایک خاتون کو حملہ آوروں نے ہلاک کرنے سے گریز کیا اور اُس کی جان بخشی کر دی تھی۔ بلخ صوبے کی پولیس کے نائب سربراہ عبدالرزاق قادری کے مطابق موقعہ واردات سے شہادتیں جمع کرنے کے بعد تفتیشی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
رواں برس مارچ میں مسلح حملہ آوروں نے وردک صوبے میں ایک بس پر اندھا دھند فائرنگ کر کے تیرہ مسافروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں افغانستان میں شیعہ مسلک کے افراد پر مسلح حملے کم دیکھے گئے ہیں۔ ہزارہ نسل کے لوگوں کی اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے اور پاکستان میں یہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے نواح میں آباد ہیں۔
اسی طرح اِسی سال فروری میں جنوبی افغان صوبے زابل میں ایک مسافر بس پر سوار اکتیس ہزارہ افراد کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ یہ افراد ایران سے زیارتوں کے بعد لوٹ رہے تھے۔ اِن افراد کو مسلح نقاب پوشوں نے اغوا کیا تھا۔ بعد میں مئی کے مہینے میں اغوا شدہ افراد میں سے انیس کو مقید ازبک جہادیوں کی رہائی کے بدلے آزاد کر دیا گیا تھا۔ بقیہ بارہ افراد کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ کل ہفتے کے روز ہزارہ نسل کے لوگوں کا قتل ایسے وقت میں ہوا جب دارالحکومت کابل میں افغان صدر اشرف غنی ملک کی تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس کے شرکاء کے ساتھ مصروفِ گفتگو تھے۔