’ہمارا انتقام جمہوریت: کل، آج اور آئندہ بھی‘، زرداری
23 دسمبر 2016آصف علی زرداری ہلکے بادامی رنگ کی شلوار قمیض، اسی رنگ کی واسکٹ اور سر پر ٹوپی پہنے گھر سے نکلے اور ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کے طیارے میں دبئی سے کراچی پہنچے۔ سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اور وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ اور دیگر رہنماؤں نے وی آئی پی پرنسلے جیٹ لاؤنج پر آصف علی زرداری کا استقبال کیا۔
زرداری صاحب کو استقبال کے لیے جمع ہزاروں افراد سے خطاب کے لیے اسی خصوصی ٹرک پر لایا گیا، جو 18 اکتوبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر استقبال کے لیے لایا گیا تھا۔
’پیپلز پارٹی پھر حکومت میں آئے گی‘
آصف زرداری خطاب کے لیے ٹرک پر نمودار ہوئے تو پرجوش کارکنوں نے فلک شگاف نعرے لگائے۔ آصف زرداری نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عوام اور فوج کی طاقت سے پاکستان مکمل محفوظ ہے، ہماری سرحدوں پر مسائل ہیں کیونکہ ہندوستان کے زیر تسلط کشمیر میں پاکستان کا پرچم جدوجہد کی علامت ہے اور ہمارا عزم ہے کہ کشمیر کو آزاد کرانا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ہمارا انتقام کل بھی جہموریت تھا، آج بھی جہموریت ہے اور کل بھی جمہوریت ہی ہوگا کیونکہ ہماری تو میتیں بھی اسی مٹی میں دفن ہوتی ہیں، ہم پاکستان کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کرسی پر کون بیٹھا ہے اور کل کون بیٹھے گا، ایک نہ ایک دن پھر پیپلز پارٹی کی حکومت ضرور آئے گی۔‘‘
آصف زرداری نے اشتراک اور اتحاد کی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت پاکستان کو متحد کرنے کا ہے مگر حکمران صرف سڑکیں بنانے میں لگے ہیں۔ چھوٹی سوچ والوں کو نظر انداز کر دیں۔ انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز ’جئے بھٹو‘ کے نعرے سے کیا اور اختتام ’پاکستان کھپے‘ کے نعرے سے۔
زرداری کے قریبی دوست کے دفاتر پر رینجرز کے چھاپے
آصف زرداری کی آمد سے قبل رینجرز نے ایک بار پھر ان کے ایک اور قریبی ساتھی انور مجید کے دفاتر پر چھاپے مارے۔ مختلف علاقوں میں مارے گئے تین چھاپوں میں پانچ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ رینجرز کے مطابق چھاپے اسلحے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی اطلاعات پر مارے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ان چھاپوں کے دوران خودکار ہتھیار، بم اور اہم دستاویزات برآمد ہوئی ہیں، جن کی مزید جانچ جاری ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صرف اتفاق نہیں ہے کہ آصف زرداری کی وطن واپسی کے موقع پر یہ چھاپے مارے گئے بلکہ دو روز قبل ایک ملزم کی گرفتاری کا تسلسل ہے اور اس کا تعلق گزشتہ ماہ پولیس کی جانب سے کلفٹن میں انور مجید کے بنگلے سے ہتھیاروں کی برآمدگی سے ہے۔ پولیس نے سیاسی دباؤ کے باعث مزید کارروائی نہیں کی تھی لیکن رینجرز نے اس سلسلے کو رکنے نہیں دیا۔
کراچی آپریشن جاری رہنے کا پیغام
سینیئر صحافی کے آر فاروقی کہتے ہیں کہ انور مجید کے علاوہ سابق ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منظور قادر کاکا اور سابق چیئرمین فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی نثار مورائی ایسے لوگ ہیں، جو کہیں نہ کہیں آصف علی زرداری سے منسلک رہے ہیں یا پھر ان کا نام استعمال کر کے ایسے کام کرتے رہے ہیں، جو قانون شکنی کے زمرے میں آتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق ملک میں فوجی کمان اور رینجرز کے سربراہ کی تبدیلی کے بعد فوج کی جانب سے سیاسی قوتوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ کراچی آپریشن کی رفتار اور سمت میں کوئی کمی اور رد و بدل نہیں ہو گی۔