1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہمیں خود کو ثابت کرنے کا موقع دیا جائے‘

5 دسمبر 2017

ایک شامی مہاجر بچے نے عالمی برادری سے شام سے ہجرت کرنے والے اُس کے ہم وطنوں کو پناہ دینے اور انہیں امکانات مہیا کرنے کی پُر زور درخواست کی ہے۔ احمد الجندی کو ان کوششوں کی وجہ سے ایک بین الاقوامی ایوارڈ دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2om9D
تصویر: Reuters/KidsRights

احمد الجندی کو بچوں کے بین الاقوامی امن ایوارڈ ’چلڈرن پیس پرائز‘ کا حق دار قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں یہ انعام وصول کیا۔ اس موقع پر خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے محمد الجندی نے کہا، ’’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں مواقع فراہم کریں تاکہ ہم خود کو ثابت کر سکیں۔‘‘ ایوارڈ وصول کرتے وقت انہوں نے کہا، ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم بھی آپ کی طرح کے انسان ہیں، ہم سب ایک ہی دنیا میں بستے ہیں۔‘‘

Libanon Flüchtlinge aus Syrien
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’کڈز رائٹس‘ کے مطابق سولہ سالہ احمد الجندی کو یہ ایوارڈ شامی مہاجر بچوں کے حقوق کے لیے ان کی انتھک کوششوں کی وجہ سے دیا گیا ہے، ’’خود بھی ایک مہاجر ہوتے ہوئے، اس لڑکے اور اس کے اہل خانہ نے لبنان کے ایک مہاجر کیمپ میں ایک اسکول تعمیر کیا، جہاں پر ریاضی،انگریزی اور فوٹو گرافی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ آج کل اس اسکول میں دو سو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔‘‘

اس تناظر میں امن کے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے کہا، ’’محمد کو علم ہے کہ شام کا مستقبل اس کے بچوں کے ہاتھوں میں ہے اور بچوں کا مستقبل تعلیم سے جڑا ہے۔‘‘ الجندی کو یہ ایوارڈ ملالہ نے اپنے ہاتھوں سے دیا۔

شامی مہاجر بچوں کی تعلیم کے لیے لاکھوں ڈالر کی امداد غائب

جرمنی میں نو ہزار مہاجر بچے لاپتہ

مارچ 2011ء سے شام میں جاری مسلح تنازعے کی زد میں آ کر اب تک ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور اقوام محتدہ کے اندازوں کے مطابق پچاس لاکھ سے زائد شامی شہری ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان میں تقریباً پچیس لاکھ بچے ہیں۔ یہ شامی شہری لبنان، ترکی، اردن اور دیگر ممالک میں قائم مہاجرین کے مراکز میں رہ رہے ہیں۔

کڈز رائٹس گزشتہ تیرہ سالوں سے ہر سال بچوں حقوق کے لیے کام کرنے والے باہمت بچوں میں یہ ایوارڈ تقسیم کر رہی ہے۔ اس ایوارڈ کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ یورو کی رقم بھی دی جاتی ہے، جو وہ اپنے آبائی ممالک میں جاری مختلف منصوبوں پر خرچ کر سکتے ہیں۔

ايک ملين سے زائد شامی بچے اسکول جانے سے محروم