1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمیں محبت تو ملی لیکن شمشان گھاٹ نہیں

من میت کور
25 جولائی 2020

ابھی اس دلخراش واقعے کے نقش میرے ذہن میں تر و تازہ ہیں۔ گوردوارہ سچا سودا جانے والے سکھ یاتریوں کی کوسٹر شیخوپورہ کے قریب ٹرین کی زد میں آ گئی۔ بیس سکھ یاتریوں سمیت بائیس افراد مارے گئے۔

https://p.dw.com/p/3ftzB
Pakistan | Bloggerin | Manmeet Kour
تصویر: privat

کئی روز تک میں اس واقعے کو میں ایک لمحے کے لیے بھی فراموش نہ کر سکی۔ تمام سکھوں کی میتیں سی 130جہاز کے ذریعے پشاور لائی گئیں۔ یہاں پشاور میں میتیوں کا آخری دیدار بھی ہو گیا۔ پشاور کے گوردوارہ بھائی جوگا میں غمزدہ خاندان سے تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ واقعہ اتنا بڑا تھا کہ سیاسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی اور غمزدہ خاندانوں کو مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

ابھی تعزیت کا سلسلہ جاری تھا کہ اسی دوران ایک اور سنگین مسئلہ سامنے آیا اور وہ یہ تھا کہ ہلاک ہونے والے سکھوں کی آخری رسومات پشاور میں ادا نہیں کی جا سکتیں تھیں۔ اس کے لیے میتوں کو اٹک لے جانا پڑتا ہے۔ آپ کے ذہن میں سوال ہو گا کہ آخر پشاور کے سکھوں کی آخری رسومات اٹک میں ادا کیوں کی جاتیں ہیں؟

ہندو اور سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی آخری رسومات شمشان گھاٹ میں ادا کی جاتیں ہیں۔ پشاور میں لگ بھگ دو سو سکھ خاندان آباد ہیں، جو یہاں کئی دہائیوں سے موجود ہیں لیکن یہاں کوئی شمشان گھاٹ موجود نہیں ہے۔

 محکمہ اوقاف مذہبی و اقلیتی امور نے اپنے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت سن 2016-17 میں ایک منصوبہ شامل کیا، جس میں مسیحی قبرستان، سکھ اور ہندو برادری کے لیے شمشان گھاٹ کی اراضی حاصل کی جانا تھی۔ پشاور میں شمشان گھاٹ کے لیے زمین کا انتخاب کیا گیا، اس کی خریداری کے لیے مالک سے بات بھی ہوئی۔ محکمہ اوقاف نے اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر پشاور کو فنڈز بھی جاری کر دیے۔

 لیکن یہ معاملہ اُس وقت پیچیدہ ہو گیا، جب علاقے میں یہ اعلانات کرائے گئے کہ اس علاقے میں ہندوؤں اور سکھوں کی آخری رسومات کے لیے شمشان گھاٹ تیار کیا جا رہا ہے۔ علاقے میں جب  یہ اعلانات ہوئے تو شمشان گھاٹ کے لیے مختص کی جانے والی زمین کے مالک کو اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنا پڑا، یہاں تک کہ اس نے جگہ دینے سے معذرت کر لی۔

خیبر پختونخوا: اقلیتوں کے مُردوں کی آخری رسومات میں مشکلات

اس کے بعد سے یہ معاملہ ایک بار پھر کاغذات تک محدود ہو چکا ہے۔ بات صرف حکومتی سست روی کی نہیں بلکہ معاشرتی رویوں کی بھی ہے۔ پشاور سے کوہاٹ اور مردان تک ہزاروں سکھ اور ہندو آباد ہیں لیکن ان میں سے کسی کا انتقال ہو جائے تو میلوں کا سفر طے کرنے کے بعد میتیوں کی آخری رسومات ادا کی جاتیں ہیں۔

ٹرین حادثے کا یہ واقعہ اس لحاظ سے بھی مزید کرب میں مبتلا کر دیتا ہے کہ ایک تو بیک وقت ایک ہی خاندان کے بیس افراد ابدی نیند سو گئے۔ پھر ان کی میتیوں کو ان کے آبائی علاقوں میں جہاز کے ذریعے منتقل کرنا پڑا، اور سب سے بڑا مرحلہ ڈیڑھ سو کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کر کے انہیں شمشان گھاٹ پہنچانا پڑا۔

 ایسے میں اس غمزدہ خاندان پر کیا بیتی ہو گی؟ کئی دہائیوں تک جہاں رہے، جس جگہ پیدا ہوئے، بڑے ہوئے، جس علاقے سے بے پناہ محبت ملی اور محبت بھی ایسی کہ اسی شہر کے ہو گئے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وہاں زندگی کے آخری سفر اور شمشان گھاٹ کے لیے جگہ نہ مل سکی۔