’ہم برقعہ نہیں ہیں‘
30 اپریل 2017کثیر الاشاعتی جرمن اخبار ’بلڈ‘ کے لیے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں جرمنی کے وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے جرمن کلچر کے دس اہم نکات بیان کیے ہیں۔ اس آرٹیکل میں ڈے میزیئر نے لکھا، ’’میں جرمنی کے مرکزی ثقافتی دھارے کے بارے میں اپنا نقطہٴ نظر پیش کر رہا ہوں اور آپ کو اس پر بحث کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘
یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے
ان کا کہنا تھا کہ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی ثقافت سب سے بہتر ہے لیکن انسانی وقار کی اہمیت کسی بھی ثقافت سے بڑھ کر ہے، جس کی حفاظت ہر قیمت پر یقینی بنائی جانا چاہیے۔
چانسلر میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے اس اہم سیاست دان نے اپنے مضمون میں جرمن ثقافت اور رہن سہن سے متعلق دس اہم نکات پیش کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ایک دوسرے سے علیک سلیک کرتے وقت ہاتھ ملانا، اپنا نام بتانا اور اپنا چہرہ دکھانا طرز زندگی کا ایک اہم جزو ہے۔ ڈے میزیئر نے اسی بارے میں زور دیتے ہوئے لکھا، ’’ہم برقعہ نہیں ہیں۔‘‘
ڈے میزیئر کے مطابق ملک کے مرکزی ثقافتی دھارے کے دیگر نہایت اہم نکات میں بنیادی تعلیم کا حصول اور ترقی کے لیے محنت کرنا بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں جرمنی کا تاریخی ورثہ، اسرائیل سے خصوصی تعلقات اور ثقافتی دولت بھی جرمن معاشرے کا کلیدی جزو ہیں۔
مذہب ’معاشرے کو اکٹھا رکھنے والا عنصر‘
کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاست دان نے مزید لکھا ہے:’’جرمنی ایک مسیحی ملک ہے۔ ہم مذہب کے حوالے سے ایک پُرامن فضا میں رہ رہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے اور نظم و نسق کے معاملات میں ملکی قوانین ہر اعتبار سے مذہبی اصولوں پر ترجیح رکھتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ مذہب ’معاشرے کو تقسیم کرنے والا عنصر نہیں بلکہ اسے جوڑنے اور اکھٹا رکھنے والا عنصر‘ ہے۔ اسی وجہ سے جرمنی میں کلیسا معاشرے کے لیے لگن کے ساتھ کام کرتا ہے۔
انہوں نے ’روشن خیال حب الوطنی‘ کو بھی جرمنی کے مرکزی ثقافتی دھارے کا حصہ قرار دیا۔ تاہم ان کی رائے میں محب وطن شخص دوسروں سے نفرت کیے بغیر اپنے ملک سے محبت کرتا ہے۔ آخر میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ یورپ، یورپ کی اجتماعی روایات، تاریخ، مقامات اور واقعات بھی مرکزی ثقافت کا حصہ ہیں۔
ڈے میزیئر کے مطابق جب داخلی اطمینان اور اپنی ثقافت کے بارے میں تحفظ کا احساس موجود ہو تو دوسروں سے متعلق برداشت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
’آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں‘
جرمن وزیر داخلہ نے مزید لکھا ہے:’’ہم جرمنی آنے والے اور یہاں رہنے والے تمام غیر ملکیوں، مہاجرین اور تارکین وطن کو ’کھلی بانہوں سے خوش آمدید‘ کہتے ہیں۔ لیکن جو جرمن ثقافت کو نہیں جانتا یا نہیں جاننا چاہتا، یا پھر اس سے اختلاف کرتا ہے، تو ایسے افراد جرمن معاشرے میں ’ضم‘ نہیں ہو سکتے اور انہیں کبھی یوں محسوس نہیں ہو گا کہ وہ اس معاشرے کا حصہ ہیں۔‘‘