ہم جنس پرستوں کو ’ٹھیک‘ کر دیں گے، بھارتی وزیر
13 جنوری 2015بھارتی وزیر رمیش توادکر نے کہا ہے کہ وہ ساحلی علاقے گوا میں ہم جنس پرستوں کے لیے ’خصوصی مراکز‘ کھولنے کا منصوبہ رکھتے ہیں، جن کے ذریعے ایسے افراد کو راہ راست پر لایا جائے گا اور ’معمول کی زندگی‘ کی جانب لوٹایا جائے گا۔
توادکر کی جانب سے یہ بات اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے اس بیان کے صرف ایک روز بات کہی گئی ہے، جس میں انہوں نے بھارت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ہم جنس پرستوں پر پابندیاں عائد کر کے ان کے خلاف عدم برداشت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
وزیراعظم نیرندر مودی کی جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کے اس رہنما کا پیر کے روز کہنا تھا کہ وہ ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کے لیے گوا میں ویسے ہی مراکز قائم کرنا چاہتے ہیں، جیسے ’الکوحلکس اینونومَس سینٹرز‘ قائم ہیں، جن میں شراب نوشی کی لت مبتلا افراد کا علاج کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ان افراد کو ’تربیت اور ادویات‘ بھی فراہم کرے گی۔
گوا کےکھیل اور نوجوانوں کے امور کے وزیر توادکر نے یہ بات نوجوانوں کے مسائل سے متعلق ریاستی پالیسی کا اعلان کرنے کے بعد کہی ہے۔ اس پالیسی میں ہم جنس پرستوں کو مسائل کا شکار گروپ قرار دیا گیا ہے، جو ’توجہ‘ چاہتا ہے۔
توادکر کے اس بیان پر بھارت میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کے ان کارکنان کی جانب سے سوشل میڈیا پر توادکر کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے بیان کو ’دل آزاری کا سبب‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس سے قبل کہا تھا کہ ہم جنس پرستوں کے خلاف نافذ کردہ قوانین سے معاشرے میں عدم رواداری کا عنصر بڑھے گا۔ اپنے بیان میں تاہم بان کی مون نے بھارت میں برطانوی نوآبادیات کے دور کے اس قانون کا براہ راست حوالہ نہیں دیا۔
پیر کی شب اپنے دورہ نئی دہلی کے دوران ان کا کہنا تھا، ’ہم جنس پرستی کو جرم بنا کر پیش کرنا درست اقدام نہیں۔‘
نئی دہلی میں ایک اجلاس سے خطاب میں انہوں نے مزید کہا، ’میں پورے فخر سے تمام انسانوں کی برابری کے حق میں کھڑا ہوں، بشمول ان کے جو لیسبین، گے، بائی سیکچوئل اور ٹرانس جینڈر ہیں۔‘
اس موقع پر بھارت کے نوبل امن انعام یافتہ کارکن کیلاش ستیارتھی بھی موجود تھے۔