ہم جنس پرستی بڑھتی ہوئی اور ایڈز کے خطرات بھی
2 جولائی 2015المیہ یہ کے ایچ آئی وی کے شکار ہر چار میں سے ایک شخص میں اس مرض کی تشخیص نہیں ہوئی ہے اور اُسے اس مرض کا شکار ہو جانے کا علم ہی نہیں ہے۔ یہ حقائق نیشنل ایڈز ٹرسٹ کی طرف سے سامنے لائے گئے ہیں۔
برطانیہ میں محض 2013ء میں چھ ہزار افراد میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص ہوئی۔ ان میں سے نصف سے زیادہ تعداد ’ہم جنس پرست‘ مردوں کی تھی۔ اسی سال برطانیہ کے ایک معروف اور متعدد ایوارڈ یافتہ ڈرامہ ہدایت کار اینڈریو کیٹس میں بھی ایچ آئی وی کے وائرس کی اچانک تشخیص ہوئی۔ وہ بھی ایک ڈرامے کی پروڈکشن کے دوران۔ کیٹس کا تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں ایسے سینکڑوں انسانوں سے مل چُکا ہوں جن میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص ہو چُکی ہے تاہم وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے جس کی وجہ معاشرے میں ایسے افراد کو ایک دھبہ یا کلنک کا ٹیکہ سمجھنے کا رجحان ہے‘‘۔
ایچ آئی وی ایڈز پر بننے والا ڈرامہ
ایچ آئی وی ایڈز کے موضوع پر بننے والے سب سے پہلے ڈراموں میں سے ایک As Is ہے۔ جس کے ہدایت کار اینڈریو کیٹس ہی ہیں۔ اس ڈرامے کی کہانی ایک غیرفعال ہم جنس پرست نوجوان جوڑے کے گرد گھومتی ہے۔ اس جوڑے کی زندگی نہایت افراتفری اور انتشار کی شکار اُس وقت ہو جاتی ہے جب 80 کے عشرے میں نیو یارک میں ایڈز کی وبا بُری طرح پھیلتی ہے۔
اس پلے کے 30 سال مکمل ہوئے ابھی گزشتہ بُدھ کو اور اس موقع پر اسے لندن کے ٹریفالگر اسٹوڈیوز میں پرفارم کیا گیا۔ لندن میں 1982ء میں جوناتھن بلیک نامی ایک شخص میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی۔ پانچ اور سات جولائی کو As Is کی پرفارمنس کے بعد جوناتھن خود اس بارے میں کیے گئے سوالات کا جواب دے گا۔ اس کا کہنا ہے، ’’80 کے عشرے میں امریکا اور برطانیہ میں ایچ آئی وی کے بارے میں بہت ہی مایوس کُن نقطہ نگاہ پایا جاتا تھا۔ مطلق خوف و ہراس پایا جاتا تھا کہ اچھے بھلے بظاہر صحت مند نظر آنے والے ہم جنس پرست مرد اچانک انتہائی خراب حالت میں مرنے لگے‘‘۔ بلیک نے اپنے اندر ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص کے بعد خود کُشی کی کوشش بھی کی تھی۔
جوناتھن بلیک کا کہنا ہے کہ برطانوی معاشرے میں ہم جنس پرست مردوں میں ایچ آئی وی کا غیر معمولی حد تک پھیلاؤ اس امر کا تقاضا کر رہا ہے کہ اسکولوں میں جنسی امور سے متعلق بہتر تعلیم پر توجہ دی جائے۔
طبی جریدے AIDS میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک میں جہاں ایڈز کے مریضوں کے خلاف تعصب بہت بڑھا ہوا ہے، اسمارٹ فونز پر ’سیکس ایپس‘ کی مقبولیت سے، ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے خطرات بھی بہت بڑھ رہے ہیں۔