1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم لفظ سازش کے سحر میں کیوں جکڑے جاتے ہیں؟

28 اپریل 2022

سازش لفظ تیسری دنیا میں اتنا سحر انگیز کیوں ہے؟ جب ہم کسی چیز کو سمجھ جاتے ہیں تو ہم بے یقینی کی کیفیت سے نکل جاتے ہیں۔ بہتر سیاسی و سماجی شعور رکھنے والے افراد سازش کا لفظ سن کر اپنے دماغ میں سنسنی محسوس نہیں کرتے۔

https://p.dw.com/p/4AZ12
Waqar Ahmad
تصویر: privat

نومبر 1990 میں جب بے نظیر کی حکومت کو فارغ کیا گیا تو اسے امریکا کی شکست کہا گیا اور اسلامی جمہوری اتحاد کے بارے میں لکھا گیا کہ 'غیرت مند پاکستانی قوم نے امریکی ایجنٹ پیپلز پارٹی کا صفایا کر دیا‘ حالیہ دنوں امریکی سازش کا ایک دفعہ پھر چرچا ہے۔ سازش لفظ تیسری دنیا میں اتنا سحر انگیز کیوں ہے؟ جب ہم کسی چیز کو سمجھ جاتے ہیں تو ہمارے اندر ایک یقین پیدا ہوتا ہے یعنی بے یقینی کی کیفیت سے نکل جاتے ہیں۔ یقین کی کیفیت میں آنے کے بعد ہمیں اپنے اوپر اور اپنے ارد گرد ماحول پر کنٹرول کا احساس ہوتا ہے۔ کنٹرول کا احساس ہمیں محفوظ ہونے کا یقین دلاتا ہے۔ اس محفوظ ہونے کے احساس کو جلد حاصل کرنے اور یقینی بنانے کے لیے ہم پہلے مرحلے یعنی سمجھنے کے معاملات پر کئی سمجھوتے کر سکتے ہیں۔

سازش پر یقین کا مطلب یہ ہے کہ آپ یقین اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ کوئی ہے جو آپ کی بقا کا دشمن ہے۔ یہاں سب سے پہال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم یقین اور اعتقاد کیوں رکھتے ہیں؟ اعتقادات اور یقین کے پس منظر میں کونسی نفسیات کام کر رہی ہے؟ جن ممالک میں عوام معاشی بدحالی، دہشت گردی، شدید ذہنی دباؤ حکمران طبقے کے حد درجہ متضاد رویوں کا شکار ہوں وہاں محفوظ ہونے کا احساس جاتا رہتا ہے۔ غیر محفوظ ہونے کا یہ احساس سازشی نظریات کی راہ ہموار کر دیتا ہے۔ مزید اس پر یہ کہ سیاسی رہنما اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب بھی کسی کو کرسی چھیننے یا اپنی کرسی بچانے کا مرحلہ درپیش ہو تو غداری اور دشمن کی سازش واال کارڈ حسب توقع نتائج دیتا ہے ان کارڈز کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ثبوت دینا ضروری نہیں سمجھا جاتا بلکہ خود عوام کو ثبوتوں میں زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ کرپشن اور مذہب کارڈ بھی بے حد مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ غیر محفوظ ہونے کے احساس کو رہنما بہت آسانی سے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ ہر فرد اپنے غیر محفوظ ہونے کی دلیل چاہتا ہے چاہے وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔

غیر محفوظ ہونے کا سبب کبھی ایسا نہیں چاہتا کہ اس میں ذمہ داری کا درد آ دھمکے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تیسری دنیا میں مسلسل یہ کارڈز کیوں استعمال کیے جاتے ہیں؟ اس کا جواب تو سادہ ہے کہ تیسری دنیا میں انسانوں کی اکثریت غیر محفوظ ہونے کا شدید احساس لیے ہوتی ہے۔ لیکن دوسرا اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کمزور سی دلیل پر کیسے قناعت کر لیتا ہے؟ ایسے ممالک میں یہ کھیل ہر دہائی میں کیوں کھیلا جا رہا ہوتا ہے؟ سازشی کہانیوں سے ہم الشعوری طور کس 'خوشگوار حیرت‘ میں مبتلا ہو جاتے ہیں؟ انسان کسی پر الزام کا ٹھوس ثبوت کیوں نہیں مانگتا؟

ارتقائی سفر میں علم کے مابین بہت کچھ ایسا تھا جو نامعلوم تھا۔ اور یقینا نامعلوم کی مقدار کہیں زیادہ تھی۔ انسانی دماغ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ شگاف یا خالی جگہ کو پسند نہیں کرتا۔ ہماری آنکھ میں ریٹنا کی سطح پر بصری عصب ہے۔ اس جگہ روشنی کو جانچنے والے خلیے موجود نہیں ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم جہاں بھی دیکھیں تو ہمیں ایک بڑا سا کاال دھبہ نظر آنا چاہئے۔ جب بصری اطلاع ہماری بصری عصب سے گزر رہی ہوتی ہے اور دماغ کے بصری تجزیے والے خانے تک نہیں پہنچی ہوتی تو یہ کاال دھبہ موجود ہوتا ہے لیکن جیسے بصری تجزیاتی مرکز تک پہنچتی ہے تو دماغ کالے دھبے کو کمال مہارت سے پر کر دیتا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال تھی وگرنہ انسانی دماغ پورا دن حسیات کے چھوڑے ان خالوں کو پر کرنے میں لگا رہتا ہے۔

لیکن انسانی دماغ صرف حسیات کے چھوڑے خالوں کو ہی پر نہیں کرتا بلکہ فکری خالوں کو بھی پسند نہیں کرتا۔ ارتقائی سفر میں جب ہوا تیز چلی یا بجلی کڑکی تو یہ سب نامعلوم کے زمرے میں آتا تھا۔ لیکن انسانی دماغ اس ناہمواری کو پسند نہیں کرتا۔ وہاں اگر کوئی اور شخص کڑکتی بجلی کو خدا کہہ دے تو یہ صورت دماغ کے لیے زیادہ قابل قبول ہے چاہے اس کی عقلی بنیادیں کمزور ہی کیوں نہ ہوں۔ اس سے ایک بنیادی مقصد تو حل ہو جاتا ہے کہ انسان اندرونی کشمکش اختلاف اور ناہمواری سے باہر آ جاتا ہے۔ پھر جیسے جیسے علم آتا گیا انسان عقلی بنیادوں پر ان خالوں کو پر کرتا چلا گیا۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ بجلی کیوں کڑکتی ہے ۔ اب ہم جانتے ہیں کہ بجلی خدا نہیں ہے۔ انسانی دماغ خلا کو پسند نہیں کرتا اور پر کرنے کے لیے غیر عقلی وضاحت پر بھی سمجھوتہ کر لیتا ہے۔ اسے تسلسل  پسند ہے اور اس کا حصول اس لیے ضروری ہے کہ یہ انسانی انا کو محفوظ بناتا ہے۔ دماغ کے لیے بقا ترجیح اول ہے۔ انسان کی نفسیات کا ایک بہت ہی اہم جزو مطابقت اختیار کرنا ہے۔ گروہ کے ایسے رکن جو چاہے غیر عقلی بات ہی کیوں نہ کر رہے ہوں ان کی تقلید کمزور ذہن کے لیے ضروری ہو جاتی ہے۔ اس کا تعلق بھی غیر محفوظ ہونے کے احساس سے ہے اور ارتقا کے سفر میں ہی یہ پیچیدگی پیدا ہوئی ہے جو اس وقت عقلی تعصب کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے۔ تصدیق کا تعصب بھی نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔

میں ایک رائے یقین یا عقیدہ قائم کرتا ہوں عموما اس کا محرک کوئی جذبہ ہوتا ہے اس کے بعد اس رائے کے حق میں آنے والے دلائل کو تسلیم کرتا چلا جاؤں گا چاہے وہ تعداد میں کم اور کمزور ہی کیوں نہ ہوں اور الشعوری طور پر ایسے بہت سے دلائل کو رد کرتا چلا جاؤں گا جو میرے عقیدے کے مخالف ہوں چاہے وہ تعداد میں زیادہ اور مضبوط ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ ایسی رائے یا عقیدے کی بنیادوں میں ایک تیز رو جذباتی لہر ہوتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یقین یا عقیدہ کیا ہوتا ہے؟ انسان کے اردگرد اتنی اشیا ہیں کہ ان کو ناقابل شمار کہا جا سکتا ہے۔ آپ کے دفتر سے گھر آنے تک راستے میں ان بے شمار اشیا کے حوالے سے ہمارا دماغ بے اعتناعی برتتا ہے۔ ہمارے لیے یا ہمارے دماغ کے لیے صرف وہ چیز اہم ہے جس کو ہم کوئی قدر تفویض کرتے ہیں۔ قدر ہم اسی چیز کو تفویض کرتے ہیں جس کی ہمارے نزدیک کوئی جذباتی اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن یہ اشیا بھی ناقابل شمار حد تک زیادہ ہو جاتی ہیں۔ اس کے لیے انسانی دماغ مختلف ماڈلز یا ایبسٹریکٹس بنا دیتا ہے۔ ان ایبسٹریکٹس کا فائدہ یہ ہے کہ انسانی دماغ کو بار بار جزئیات میں نہیں گھسنا پڑتا۔ وہ ایبسٹریکٹ کی بنیاد پر علم کی عمارت تعمیر کیے جاتا ہے۔ اگر یہ ایبسٹریکٹس بہت زیادہ جذباتی خوف نفرت حقارت غصہ بنیادوں پر بنے ہوں تو عقلی حوالے سے کمزور ہوں گے اور عمارت بھی ٹیڑھی میڑھی بنتی جائے گی۔ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ آپ ان ایبسٹریکٹس کی جانب اشارہ نہیں کر سکتے مثال کے طور پر کسی فرد کے مذہبی عقائد کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکتے کیونکہ ردعمل انتہائی جذباتی ہو سکتا ہے۔آپ کا مخاطب فرد خوف محسوس کرتا ہے کہ اس کی بنیادوں کی جانب تنقیدی اشارہ کرنا اس کی بقا کو سنگین خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

مجموعی طور پر معاشرے میں جس قدر زیادہ افراد کی بنیاد ایسے ایبسٹریکٹس ہوں گے جن کی بنیادیں جذباتی ہوں گی اتنا ہی وہ معاشرہ ترقی کرنے سے قاصر رہے گا۔آپ اندازہ کیجئے اس وقت کا جو گذشتہ دو ماہ میں پاکستانیوں نے سیاست جیسے موضوعی مضمون پر گفتگو کرتے ہوئے ضائع کیا۔ کسی معاشرے کو جاننا ہو کہ وہ عقلی حوالے سے کس سطح پر کھڑا ہے؟ اور اس میں ترقی کی کس قدر مخفی قوت ہے؟ تو وہاں کے گفتگو کے موضوعات کو دیکھ لیجئے.

سیاست اور مذہب جیسے موضوعی مضامین ان کی ترجیحی فہرست میں کس جگہ رقم ہیں؟ کیا وہ جب بیٹھتے ہیں تو انہیں موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں؟ یا ان کے دنیا بے حد وسیع ہے اور ہزاروں موضوعات ہیں اور وہ موضوعی معاملات پر گفتگو کرنے کو بدذوقی گردانتے ہیں۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں غیر محفوظ ہونے کا احساس مثبت نتائج بھی دے سکتا ہے۔ غیر محفوظ ہونے کا یہ احساس آپ میں ذات کی ترقی کا شعور پیدا کر سکتا ہے۔ آپ ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں سے کہیں زیادہ علم اور ہنر کی طرف توجہ دینے  کے قابل ہو سکتے ہیں۔ ۔ آپ کے نزدیک خودداری کا تصور معاشی ترقی کے بغیر ممکن نہیں اور کشکول کی موجودگی میں دعوے مزید مضحکہ خیز ہو جاتے ہیں۔ آپ کی توجہ اپنا آپ اور ارد گرد کو بہتر کرنے پر لگ جاتی ہے۔ آپ سیاسی رہنماوں کے متضاد رویے اور پست کردار کو پہچاننے لگ جاتے ہیں۔ آئین کو سائنسی انداز سے سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ سوالات پالتے ہیں اور مسلسل ان کی کھوج میں رہتے ہیں۔

آپ کے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا ہو سکتا ہے۔ آپ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو پہچاننے کے قابل ہو سکتے ہیں اور اپنی ذات کو تبدیل کرنے پر وقت صرف کرتے ہیں۔ آپ کی گفتگو معروضی طرز اختیار کر لیتی ہے۔آپ سیاست پر معروضی تجزیہ دیتے ہوئے مختصر وقت استعمال کرتے ہیں۔ آپ کے نزدیک شواہد کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے اور بغیر شواہد کے آپ کسی الزام یا بات کو سنجیدہ نہیں لیتے، بہتر سیاسی و سماجی شعور پیدا کر لیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سازش کا لفظ سن کر آپ کا دماغ اپنے اندر سنسنی محسوس نہیں کرتا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔