ہند پاک وزرائے اعظم مذاکرات کی بحالی پر متفق
29 اپریل 2010پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے اس سے پہلے گزشتہ برس جولائی میں مصر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا تھا لیکن اس کے بعد بات آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ بھوٹان میں ڈاکٹر من موہن سنگھ اور سید یوسف رضا گیلانی کی میٹنگ چالیس منٹ کی تاخیر سے شروع ہوئی تاہم تقریباً پچاس منٹ تک جاری رہنے والی اس ملاقات سے قبل دونوں رہنماوٴں نے گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔
اس میٹنگ میں آخر ہوا کیا، کن کن موضوعات پر باتیں ہوئیں اور کیا طے پایا؟
بھارت اور پاکستان سے سارک سمٹ کی کوریج کے لئے بھوٹان گئے ہوئے صحافیوں کے مطابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ملاقات کے دوران ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی میں شامل عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا ایک بار پھر پرزور مطالبہ کیا۔ بھوٹان میں موجود پاکستانی صحافی اسد یار نے ڈوئچے ویلے اردو سے گفتگو میں کہا کہ ہند پاک وزرائے اعظم نے اپنی ملاقات میں مذاکراتی عمل کی بحالی پر اتفاق کیا۔’’پاکستان اور بھارت نے مذاکرات کا عمل دوبارہ بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے اور کہا ہے کہ آگے بڑھنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے۔ بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم نے اپنے اپنے وزرائے خارجہ اور خارجہ سیکریٹریز کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ مذاکرات کی بحالی کے لئے طریقہء کار طے کریں اور اس حوالے سے تواتر کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ملاقاتیں کریں تاکہ اعتماد کی فضا قائم ہو سکے۔‘‘
بھوٹان میں بھارتی وزیر اعظم نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے سامنے اپنا پرانا موٴقف دہراتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی، در اندازی اور ممبئی حملوں کی سازش میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف نامناسب کارروائیاں ہی دونوں ملکوں کے تعلقات کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ نومبر دو ہزار آٹھ میں ممبئی پر منظم حملوں کے بعد سے ہند پاک تعلقات زبردست کشیدگی کا شکار ہیں۔
تھمپو میں پاک بھارت رہنماؤں کی اس ملاقات کے بعد روایتی حریفوں کے نمائندوں نے علٰیحدہ علٰیحدہ پریس کانفرنس کی۔ بھارتی خارجہ سیکریٹری نروپما راوٴ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی کی ملاقات اچھے ماحول میں ہوئی اور دونوں رہنماوٴں نے کھلے طریقے سے اہم مسائل پر بات چیت کی۔’’اس ملاقات میں یہ طے پایا کہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ اور خارجہ سیکریٹریز کو اعتماد کی بحالی اور مذاکرات جاری رکھنے کے لئے لائحہ عمل طے کرنے کا کام سونپا جائے گا۔‘‘
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ اب جلد ہی ملیں گے۔ قریشی نے بھی دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کو مثبت قرار دیا۔
اگر ملاقات مثبت ماحول میں ہوئی تو پھر دونوں ملکوں کے نمائندوں نے الگ الگ پریس کانفرنس کیوں کی، اس حوالے سے صحافی اسد یار نے بتایا:’’پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بریفنگ کے دوران صحافیوں نے ان سے یہی سوال پوچھا۔ قریشی نے کہا کہ انہیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ ذرائع ابلاغ کے نمائندے اتنی بڑی تعداد میں موجود ہوں گے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے وضاحت کی کہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ بہت جلد مشترکہ پریس کانفرنس بھی کریں گے۔‘‘
بھوٹان میں سولہویں سارک سربراہ اجلاس کے موقع پر ڈاکٹر من موہن سنگھ اور سید یوسف رضا گیلانی کے درمیان جمعرات کی علٰیحدہ ملاقات کو بعض تجزیہ نگار ایک ’مثبت پیش رفت‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں جبکہ بعض دیگر حلقے اس سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے کو ’کوتاہ اندیشی‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔
کیا یہ ملاقات بھارت اور پاکستان کے باہمی رشتوں کے درمیان جمی برف پگھلانے میں معاون ثابت ہوسکے گی؟
بھارت میں مقیم جنوبی ایشیا سٹڈیز کے ماہر ریٹائرڈ پروفیسر کلیم بہادر کے مطابق بھوٹان میں دونوں ملکوں کے رہنماؤں کا ملنا واقعی ایک مثبت پیش رفت ہے تاہم انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ لوگوں کو ایک ملاقات سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہییں۔’’ہمیں زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہییں تاہم ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ دونوں رہنما اپنے خارجہ سیکریٹریز کی وساطت سے مزید مذاکرات کے دراوزے کھولیں گے اور بہتر فضا کی راہ ہموار کریں گے۔‘‘
ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ چار سال سے جاری جامع مذاکراتی امن عمل یہ کہہ کر معطل کر دیا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر سرگرم شدت پسندوں کے خلاف ’’ٹھوس کارروائی‘‘ نہیں کر رہا ہے۔ رواں برس فروری میں بھارتی خارجہ سیکریٹری نروپما راوٴ اور ان کے پاکستانی ہم منصب سلمان بشیر کے درمیان نئی دہلی میں ملاقات بے نتیجہ ثابت ہوئی تھی۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: امجَد علی