ہنگری کا شہر پیچ:یورپی ثقافتی دارالخلافہ 2010ء
7 جنوری 2010ہنگری کا ایک لاکھ پچھتر ہزار آبادی والاشہر پیچ اِس سال کے یورپی ثقافتی دارالخلافے بننے والے شہروں میں سب سے چھوٹا لیکن مغربی ہنگری کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اِس سال کے دوران مختلف ثقافتوں کے نمائندہ شہر پیچ کو پوری دُنیا کے سامنےاپنی دو ہزار سالہ رنگا رنگ تاریخ پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ تاہم اِس شہر میں جشن کا سا سماں گزشتہ سال ہی سے دیکھنے میں آ رہا ہے، جب تیئیس اگست کو یہاں بشپ کے تعلقے کے قیام کی ایک ہزار ویں سالگرہ منائی گئی تھی۔
اِس شہر کی شناخت سینٹ ماریا کیتھولک چرچ ہے۔ سن 1585ء میں جب ترک یہاں قابض تھے تو اُنہوں نے یہاں پہلے سے موجود ایک رومن گرجا گھر کو سبز گنبد والی ایک چوکور مسجد کی شکل دے دی۔ جب ایک سو پچاس برس بعد ترکوں کو یہاں سے نکالا گیا تو کیتھولک کلیسا نے اِس مسجدکا مینار ہٹا کر اِس پر ایک کلیسائی مینا ر تعمیر کروایا اور اِسے پھر سے ایک گرجا گھر کی شکل دے دی۔ اِس گرجا گھر کے ایک حصے میں ابھی بھی سلطنتِ عثمانیہ کے دور کی باقیات اور قرآنی آیات دیکھی جا سکتی ہیں۔
بشپ مِہالی مائر بتاتے ہیں:’’بہت سے کیتھولک مسیحی اِس چرچ کو آج بھی جامعہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ لیکن پوری حقیقت نہیں ہے۔ یہاں ایک جامعہ ضرور تھی لیکن ابتدا میں یہ ایک مسیحی عبادت خانہ تھا، جسے مسجد میں بدلا گیا۔ کمیونسٹ دور میں اِس کیتھیڈرل کے دروازے ویسے ہی ہر ایک پر بند رہے۔‘‘
بشپ مائر بتاتے ہیں کہ ہنگری میں کمیونسٹوں کے پچاس سالہ دور میں کیتھولک کلیسا کا کردار ثانوی نوعیت کا رہا جبکہ پیچ شہر قدیم دَور سے شاندار مسیحی روایات کا حامل چلا آ رہا ہے۔ ابھی چند عشرے پہلے یہاں چوتھی صدی عیسوی کے زمانے کی قبریں دریافت ہوئی تھیں۔ آج کل یہ قبریں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہمیشہ سے ہی ہنگری کے خوبصورت شہروں میں شمار ہونے والے پیچ نے یورپی ثقافتی دارالخلافہ ہونے کی دوڑ میں ہنگری کے دارالحکومت بُوڈا پیسٹ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: افسر اعوان