ہٹلر پر ناکام قاتلانہ حملے کے 75 برس
20 جولائی 2019جرمنی میں آڈولف ہٹلر کے خلاف بغاوت کی اس کوشش کو سراہے جانے کا آغاز اس واقعے کے کئی برس بعد ہوا۔ 1951ء کے موسم گرما میں ایک سروے کے دوران جرمن شہریوں سے جب بیس جولائی 1944ء کے اس واقعے کے حوالے سے اُن کے تاثرات دریافت کیے گئے تھے، تو سروے کے محض ایک تہائی شرکاء اُن مزاحمت کاروں کے بارے میں مثبت رائے کے حامل تھے، جنہوں نے نیشنل سوشلسٹ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔
1956ء میں بھی یہ حال تھا کہ جب ایک اسکول کو ہٹلر پر حملہ کرنے والے کلاؤس شَینک فان شٹاؤفن برگ سے موسوم کرنے کی کوشش کی گئی تو زیادہ تر شہریوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔
بیس جولائی 1944ء کو فان شٹاؤفن برگ اور اُن کے تین ساتھیوں نے نازی قائد آڈولف ہٹلر کو اُن کے ہیڈکوارٹر ’وولف شانتسے‘ میں بم دھماکے کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ اس دھماکے کے نتیجے میں وہاں موجود چوبیس میں سے پانچ افراد ہلاک ہو گئے تاہم ہٹلر کو محض معمولی زخم آئے اور یوں یہ بغاوت ناکام ہو گئی۔
اس سے اگلی ہی رات فان شٹاؤفن برگ اور اُن کے تین ساتھیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جبکہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں ایسے مزید سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جنہوں نے اس حملے کی منصوبہ بندی میں کسی بھی طرح سے کوئی کردار ادا کیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ ختم ہو جانے کے بعد بھی زیادہ تر جرمن یہی سمجھتے تھے کہ فان شٹاؤفن برگ نے اس قاتلانہ حملے کے ذریعے ہٹلر کے ساتھ کیے جانے والے عہد کو توڑا تھا اور یوں غداری کے مرتکب ہوئے تھے۔ دراصل یہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے پہلے سربراہِ مملکت تھیوڈور ہَوئیس تھے، جنہوں نے جرمنوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور اُنہیں اس امر کا قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہٹلر کے خلاف مزاحمت غداری نہیں تھی اور فان شٹاؤفن برگ کی حکم عدولی ایک باعث افتخار کارنامہ تھا۔
بیس جولائی 1954ء کو فان شٹاؤفن برگ اور اُن کے ساتھی مزاحمت کاروں کی یاد میں منعقدہ پہلی سرکاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ہوئیس نے آڈولف ہٹلر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:’’یہ حلف ایک ایسے شخص کے ساتھ وفاداری کا تھا، جس نے قانونی، اخلاقی اور تاریخی اعتبار سے ہر عہد کو توڑا تھا۔‘‘
ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے جرمن قانونی ماہر روڈیگر فان فَوس کہتے ہیں:’’تھیوڈور ہَوئیس کے اسی خطاب کے نتیجے میں جرمنی میں اس جرمن مزاحمت کو مختلف طریقے سے دیکھنے کے رجحان کی ابتدا ہوئی۔‘‘
فان فَوس نے اپنی زندگی اسی کام کے لیے وقف کر رکھی ہے کہ بیس جولائی 1944ء کے مزاحمت کاروں کی یاد کو زندہ رکھا جائے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ خود اُن کے والد بھی ہٹلر کے خلاف ہونے والی اِس سازش میں شریک تھے۔ فان فَوس کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے، جس میں اس واقعے کی یادگاری تقاریب میں کی جانے والی اہم تقاریر شامل کی گئی ہیں۔
ایسی ہی ایک تقریر معروف جرمن ادیب کارل سُوک مائر کی تھی، جس میں اُنہوں نے ہٹلر کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے بارے میں کہا تھا:’’یہ لوگ اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ اُن کی کامیابی کی امید بہت ہی کم ہے لیکن یہ کہ اُنہیں پھر بھی یہ قدم اٹھانے کی ہمت کرنا ہو گی۔ اُنہوں نے یہ ہمت اس قوی امید کے ساتھ کی کہ اگر اُن کی یہ کوشش ناکام بھی ہو گئی تو یہ مستقبل میں ضرور مشعلِ راہ ثابت ہو گی۔‘‘
وقت کے ساتھ ساتھ اب جرمنی میں صورت یہ ہے کہ کل کے ان غداروں کو ہیروز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جرمنی میں آج بروز ہفتہ کلاؤس فان شٹافن برگ اور ان کے دیگر ساتھیوں کو خراج عیقدت پیش کیا جا ریا ہے، جنہوں نے ہٹلر کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اپنے ہفتہ وار پوڈ کاسٹ میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ موجودہ حالات میں دائیں بازو کی انتہا پسندی میں اضافے کے تناظر میں شٹافن برگ کی برسی پر انہیں یاد کرنا اور زیادہ اہم ہو گیا ہے۔