ہیومن ٹریفکنگ: تھائی جنرل کے وارنٹ گرفتاری جاری
2 جون 2015ان پر میانمار اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی ٹریفکنگ کے جرم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی اعلیٰ فوجی افسر کے خلاف ہیومن ٹریفکنگ کے الزامات کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتوں کے دوران ساڑھے تین ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان اور بنگلہ دیشی باشندے غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر تھائی لینڈ، ملائشیا اور انڈونیشیا پہنچے ہیں۔ ان ہزاروں انسانوں کی اس علاقے کی طرف مہاجرت وہاں ایک سنگین بحران کا سبب بن چکی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں تھائی لینڈ میں حکمران فوجی جنتا کے حکام پر الزامات عائد کرتی رہی ہیں کہ انہوں نے انسانی اسمگلنگ کے کاروبار کی طرف سے یا تو آنکھیں بند کی ہوئی ہیں یا پھر وہ اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ تاہم آج سے پہلے کسی فوجی افسر کے خلاف اس طرح کی کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
تھائی لینڈ کی نیشنل پولیس کے سربراہ سومیوت پوم پانمونگ Somyot Poompanmoung نے آج منگل دو جون کو بتایا کہ عدالت نے انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل ماناس کونگ پان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں پولیس ہیڈکوارٹرز میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف جاری کارروائیوں کے بارےمیں میڈیا بریفنگ سے قبل پولیس سربراہ کا کہنا تھا: ’’پولیس اپنے پاس موجود شواہد کے بارے میں پر اعتماد ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے ابھی تک ملکی فوج سے جنرل ماناس کی حوالگی کے لیے رابطہ نہیں کیا: ’’مجھے یقین ہے کہ وہ فرار نہیں ہوں گے۔‘‘
دوسری طرف سمندر میں پھنسے غیر قانونی تارکین وطن ابھی تک مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق میانمار کی بحریہ ایسے ہی تارکین وطن کی ایک کشتی کو بنگلہ دیش کے پانیوں کی طرف لے جا رہی ہے۔ میانمار کے وزیر اطلاعات یے ہتوت Ye Htut کے مطابق اس کشتی پر 727 غیر قانونی تارکین وطن سوار ہیں اور اسے بحیرہ انڈیمان میں چار روز قبل روکا گیا تھا۔
وزیر اطلاعات نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’میانمار کی بحریہ ان تارکین وطن کی کشتی کے ساتھ بنگلہ دیش کے پانیوں تک جائے گی۔ وہ انہیں پانی، خوراک اور دیگر اشیاء فراہم کریں گے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ ان کی اپنی خواہش کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ ہم انہیں بنگلہ دیش بھیجنے کے لیے ان سے تعاون کریں گے۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس کشتی پر سوار مہاجرین کی کتنی تعداد کس ملک سے تعلق رکھتی ہے۔
ادھر امریکی صدر باراک اوباما نے بھی میانمار پر زور دیا ہے کہ اگر وہ کئی دہائیوں کی فوجی حکومت کے بعد جمہوریت کی طرف سفر میں کامیابی چاہتا ہے تو وہ اپنی روہنگیا آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کرے۔
جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ’ینگ لیڈرز‘ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پیر یکم جون کو امریکی صدر کا کہنا تھا، ’’روہنگیا باشندوں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے اور وہ اسی باعث وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
میانمار کے مغربی حصے میں 13 لاکھ روہنگیا مسلمان آباد ہیں تاہم میانمار انہیں بنگلہ دیشی قرار دیتے ہوئے مقامی شہریت دینے سے انکاری ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے ملک کی اکثریتی بدھ آبادی کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف پر تشدد کارروائیوں کے سبب یہ مسلمان اقلیت شدید مشکلات کا شکار ہے۔