ہیٹی میں زلزلہ، سینکٹروں ہلاکتوں کا خدشہ
13 جنوری 2010امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا مرکز دارالحکومت پورٹ او پرنس سے صرف پندرہ کلومیٹر دور دس کلومیٹر گہرائی میں تھا۔ زلزلے کے باعث ہسپتالوں سمیت بڑی تعداد میں عمارتیں زمیں بوس ہو گئی اور فضا میں دھول اور گرد کے بادل چھا گئے۔ زلزلے کے بعد 5.9 اور 5.5 کی شدت سے آفٹر شاکس بھی ریکارڈ کئے گئے اور ان کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔
امریکہ میں ہیٹی کے سفیر نے اسے ’’ایک بڑے پیمانے کی تباہی‘‘ قرار دیا ہے۔ زلزلے کے باعث دارالحکومت میں مواصلات کے نظام کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ عمارتوں کے ملبے سے زخمیوں کی تلاش اور ہسپتال منتقلی کا کام جاری ہے۔ پورٹ او پرنس میں خبر رساں ادارے روئٹرز کے ایک نمائندے کے مطابق درجنوں افراد عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ علاقے میں موجود کیتھولک ریلیف سروسز کے نمائندے کارل زیلیکا کے مطابق : ’’اس واقعے میں ہزاروں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔‘‘
امریکی صدر باراک اوباما نے واقعے پر گہرے افسوس اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ہیٹی کی عوام کی ہر ممکن مدد کے لئے تیار ہے۔
اقوام متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ وہ امدادی سرگرمیوں میں مصروف اپنے کارکنوں سے واضح صورتحال جاننے کے لئے رابطوں کی کوشش کر رہے ہیں، مگر انہیں اس سلسلے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کی ایک ترجمان سٹیفنی بنکر کے مطابق ایسے کسی بڑی تباہی کا شکار ہونے والے علاقے میں اس قسم کے مسائل غیرمتوقع نہیں تاہم انہوں نے کہا کہ پورٹ او پرنس میں آنے والی تباہی یقینی طور پر بڑے پیمانے کی ہے۔
امریکہ میں ہیٹی کے سفیر ریمنڈ جوزف نے خبر رساں ادارے سی این این سے بات چیت میں بتایا :’’میری وہاں اپنے ایک ساتھی سے بات ہوئی ہے۔ وہ گاڑی چلا رہا تھا مگر زلزلے کے باعث اسے گاڑی روک کر باہر نکلنا پڑا۔ اس نے بتایا کہ عمارتیں بری طرح سے جھول رہی تھیں۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسے نہیں لگتا وہ گھر پہنچ پائے گا۔ اس کے راستے میں ایک پل پار کرنا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں زلزلہ بڑی تباہی کا باعث بنا ہے۔‘‘
امریکی جیولوجیکل سروے سے وابستہ مائیک بلانپائیڈ نے ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے سے بات چیت میں کہا کہ کہ اس زلزلے کی نوعیت اور شدت اور علاقے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زلزلے سے کم از کم تین ملین افراد متاثر ہوئے ہیں۔
’’زلزلے کا مرکز انتہائی گنجان آباد علاقے کے قریب تھا۔ اس وجہ سے یقینی طور پر نقصانات بھی زیادہ ہوئے ہوں گے۔‘‘
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت: عدنان اسحاق