ہیٹی میں ہیضہ: مدد کے لئے اقوام متحدہ کی اپیل
15 نومبر 2010ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ او پرانس کے شمالی حصے میں احتجاج جاری ہیں، وہاں شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک امدادی کارروائیوں کے منتظر ہیں۔ سب سے زیادہ تنقید حکومت پر کی جارہی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ حکومت ہیضہ کی وبا کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس شہر میں چارلاکھ کے قریب افراد مقیم ہیں۔ زیادہ تر افراد لکڑی کی بنائی گئی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ بدبودار گلیاں کوڑے کرکٹ سے بھری پڑی ہیں اور بیت الخلاء بھی کم ہی نظرآتے ہیں۔ وہاں مقامی ہسپتال مریضوں سے بھرا پڑا ہے۔ بعض مریض تو اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ خود اپنے سہارے پر چل بھی نہیں سکتے۔ وہاں موجود ایک نرس کا کہنا ہے، ’ہمارے پاس اس وقت مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ طبی آلات کی کمی ہے۔ ہم یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ یہ سب افراد ہیضے میں مبتلا ہیں یا کسی اور بیماری میں۔ صرف گزشتہ روز چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘
ہیضے کی وباء کے شکار افراد کی تعداد دراصل کتنی ہے؟ اس بات کا صیح اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق چودہ ہزار سے زائد افراد اس وبا کے شکار ہیں، جبکہ مرنے والوں کی تعداد نو سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ امدای تنظیموں کا کہنا ہے کہ متاثرین کی حقیقی تعداد ان اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔
دوسرے علاقوں کی نسبت پورٹ او پرانس میں صورتحال کچھ بہتر ہے، جہاں امدادی تنظیموں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ وہاں پر لگائے گئے کیمپوں میں بیت الخلاء بھی بنائے گئے ہیں اور پینے کا صاف پانی بھی موجود ہے۔امدادی تنظیم اوکس فیم کی ایک رکن کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں صورتحال اس سے بھی ابتر ہے۔ وہ کہتی ہیں،’اب ہمیں پورٹ او پرانس کے علاوہ دوسرے علاقوں پر بھی توجہ دینی چاہیے، جہاں امداد کے منتظر متاثرین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہمیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس طرح ان علاقوں میں امدادی انتطامات مکمل کر سکتے ہیں۔‘
ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ او پرانس میں حکومتی اورامدادی ادارے اس وبا پر قابو پانے کے لئے کوشاں ہیں، تاہم امدادی تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مرض ان امدادی کیمپوں میں پھیل سکتا ہے، جہاں زلزلے سے متاثرہ گیارہ لاکھ افراد مقیم ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: ندیم گِل