کوئی حضرت پہلی دفعہ مسجد میں نظر آئیں یا کوئی خاتون حجاب میں تو حس مزاح کو استعمال کرنا بڑا فطری عمل ہے۔ معاشرتی اور معاشی تبدیلی پر بھی ایسے رویے اکثر نظر آتے ہیں کیونکہ اکثر لوگوں کو دوسروں کی زندگیاں دلچسپ ہی اتنی لگتی ہیں۔
اسی طرح ازدواجی زندگی میں تبدیلی، طلاق یا ساتھی کے انتقال کے بعد آگے بڑھنا ذہنی اور جذباتی طور پر بہت مشکل قدم لگتا اور یہاں رشتے دار اور دوست احباب سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر اس موقع پر بھی صرف ماضی کی یاد دہانی کروائی جائے تو زندگی ناممکن ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر بچوں کے سامنے نئے رشتے کو سوتیلا کہہ کہ صرف ماضی سے موازنہ کرنا بہت گہرا اثر رکھتا ہے۔ رشتے داروں کا ذمہ دار رویہ بہت سے نئے رشتوں کی پختگی کا ضامن ہو سکتا ہے۔
ماضی کی یاددہانی کسی بھی انسان کے لیے تکلیف ده ہو سکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال وہ لوگ ہیں، جو مختلف ذہنی بیماریوں سے دوچار ہیں۔ سب سے اندھی اور گہری کھائی منشیات کی عادت اور بیماری ہے، جس سے جان چھڑانا بہت ہمت اور حوصلے کی جنگ ہے۔ ایسے میں اگر ماضی یاد دلا کر واپس دھکیل دیا جائے تو یہ سراسر جان لینے کے مترداف ہے۔
لاہور کے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر شازب شمیم سے کچھ معلومات اکھٹی کرنے پر بہت سے حیرت انگیز اور پریشان کن انکشافات ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک 15 سالہ بچہ جو اسکول میں اس بری عادت میں پڑ گیا تھا۔ اسے ان کے پاس علاج کے لیے لایا گیا اور وہ صحت یاب ہو گیا۔چونکہ وہ ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا جہاں مذہبی رحجان اور تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی تو اس بچے کے گھر والوں کے لیے یہ حقیقت تسلیم کرنا تقریباً ناممکن اور اس قدر باعث شرم تھا کہ بار بار اسے ماضی کا حوالے دے کر ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے اور ہر وقت کا شک اسے اس نہج پرلے آیا، جہاں نشہ ایک دفعہ پھر ایک آسان فرار ثابت ہوا۔
اسی طرح ایک اور مریض کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کالج کی ایک بچی جب اسی لت کا شکار ہوئی۔ اس کا علاج ہوا تاہم اس کے صحت یاب ہونے کے بعد اس کے والدین کو سمجھانا زیادہ بڑا مسئلہ ثابت ہوا۔ والدین کے لیے یہ حوالہ اتنا قابل شرم بن گیا کہ یکا یک غیرت اور معاشرے میں عزت، بیٹی کی جان سے بڑھ کر عزیز ہو گئی۔ مستقبل میں اچھا رشتہ نہ ملنے کا خوف ان پر اتنا حاوی رہتا که آخرکار اس بچی نے اپنی جان لے کر والدین کے سب خوف اور خدشات ختم کر دیے۔ اب وہی والدین اس کے لیےترستے ہیں، جو پہلے اس کا وجود برداشت نہیں کر پارہے تھے۔
دوسری طرف ایسے مواقع بھی آتے ہیں، جہاں دوست احباب ماضی یاد دلا کر واپس وہیں کھینچ لاتے ہیں، جہاں سے پہلے جان بچا کر مریض زندگی کی طرف آیا تھا۔ یہ طرز عمل عام طور پر امیر حلقوں میں قدرے زیادہ نظر آتا ہے، جہاں یہ احساس بھی دلایا جاتا ہے کہ شاید اب آپ ماڈرن نہیں رہے اور ان عادتوں سے کتراتے رہتے ہیں۔ یہ صورتحال بدقسمتی سے اکثر ماضی کی کھائی میں جانیں ہڑپ کروا دیتی ہے.
صرف منشیات ہی نہیں بلکہ اعصابی دباؤ یعنی ڈپریشن کا شکار لوگ بھی زیادہ تر ماضی کے گھرے رہتے ہیں۔ ماضی کے کسی ایسے حصے میں جہاں ان کے ساتھ کوئی جذباتی، جسمانی یا جنسی استحصال ہوا ہو۔ اس تجربے کو دفنا کر آگے چلنے کے لیے بہت ہمت بہادری اور محنت درکار ہوتی ہے۔ یہ ماضی انہیں آگے بڑھنے سے روک کر صرف پریشانی اور الجھن میں جکڑے رکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو خاص طور پر اپنے ارد گرد حساس لوگوں کی ضرورت رہتی ہے، جو آگے بڑھنے میں مثبت کردار ادا کریں۔
ایکہارٹ ٹولےEckhart Tolle) ( اپنی کتاب دی پاور آف ناؤ(The power of Now) میں اسی حل کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بہت سے ذہنی مسائل اس لیے جنم لیتے ہیں کہ انسان ذہنی طور پر اپنے ماضی یا مستقبل کے بارے میں اتنا فکرمند رہتا ہے کہ اپنے حال پر پوری طرح گرفت نہیں رکھ پاتا۔ ایسی صورت میں مختلف ذہنی ورزشوں کے ساتھ ساتھ سب سے نمایاں کردار سماجی حلقہ ادا کرتا ہے۔
کسی بھی انسان کے ماضی، حال یا مستقبل کو کتنا کریدا جا سکتا ہے اس کی حد مقرر کرنا بہت ضروری ہے، خواہ آپ کسی بھی رشتے یا حیثیت سے بہت قریب ہی کیوں نہ ہوں۔ بحثیت انسان اتنا حساس ہونا ہمارا فرض ہے کہ کسی کی زندگی کی مثبت تبدیلی کو مزید بڑھاوا دیں۔ ماضی کو بس خوشگوار یادوں یا کسی اپنے کے گزر جانے پر دعا دینے سے زیادہ نہ یاد کروائیں, یہ نہ ہو کہ کسی کی تمام تر بہادری، ہمت اور محنت کے باوجود ہمارا غیر ذمہ دارانہ رویہ اس انسان کی زندگی جہنم بنا دے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔