یاسر عرفات کا مبینہ قتل: فرد جرم کے بغیر ہی مقدمہ داخل دفتر
2 ستمبر 2015نیوز ایجنسی اے ایف پی کی فرانسیسی شہر Nanterre سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق سرکاری دفتر استغاثہ کی طرف سے آج بدھ دو سمتبر کے روز بتایا گیا کہ ان ججوں نے، جو یاسر عرفات کے مبینہ قتل اور ان کی موت کے پیچھے اصل حقائق کی چھان بین کا کام کر رہے تھے، اس ’کیس کو بند کر دیا ہے‘۔
پیرس کے نواح میں اس فرانسیسی شہر کی عدالت میں اسٹیٹ پراسیکیوٹر کے فرائض انجام دینے والے اعلٰی اہلکار نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’ان تحقیقات کے اختتام پر یہ بات ثابت نہ ہو سکی کہ یاسر عرفات کو پولونیم 210 نامی زہریلا تابکار مادہ دے کر قتل کیا گیا تھا۔‘‘
یاسر عرفات کی موت پیرس کے نواح میں ایک فرانسیسی فوجی ہسپتال میں 75 برس کی عمر میں نومبر 2004 میں ہوئی تھی۔ اس سے قبل انہیں مغربی کنارے کے فلسطینی شہر راملہ میں واقع اپنے صدر دفاتر میں پیٹ کے شدید درد کی شکایت لاحق تھی، جس پر انہیں علاج کے لیے فرانس منتقل کر دیا گیا تھا۔
فرانسیسی ججوں نے آج اپنے فیصلے میں کہا کہ یاسر عرفات کی موت کے سلسلے میں کسی تیسرے فریق کی طرف سے ایسی کسی ممکنہ مداخلت کے کوئی شواہد نہیں ملے جو اس فلسطینی رہنما کی جان لینے کی کوشش کر سکتا تھا۔
مرحوم یاسر عرفات کی بیوہ نے ان کے انتقال کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ یاسر عرفات کو زہر دے کر قتل کیا گیا تھا۔ اے ایف پی کے مطابق عرفات کی بیوہ کی طرف سے واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ فرانسیسی عدالت کے آج کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گی۔
فرانسیسی حکام نے عرفات کی موت کے فوری بعد بھی اس سلسلے میں تفتیش کی تھی اور حقائق کے تعین کے لیے انہوں نے اپنی آج روک دی جانے والی چھان بین کا نئے سرے سے آغاز اگست 2012ء میں کیا تھا۔ اس مقصد کے تحت یاسر عرفات کے انتقال کے کئی سال بعد ان کی قبر بھی کھولی گئی تھی تاکہ تفتیش میں مدد دینے کے لیے ان کی جسمانی باقیات سے طبی نمونے حاصل کیے جا سکیں۔