یمن:کم سنی کی شادیاں، ایک اور اندوہناک واقعہ
11 اپریل 2010یمنی معاشرہ قدامت پسند قبائلی روایات پرقائم ہے۔ یہاں لڑکیوں کی کل تعداد کا ایک چوتھائی سے زیادہ کم سنی کی شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس فرسودہ معاشرے میں لڑکیوں کی شادی اوسطاً 15سال کی عمر میں کر دی جاتی ہے۔ اس ضمن میں 2009 ء میں ایک قانون ینایا گیا تھا، جس کے تحت لڑکیوں کی شادی 17 سال سے کم عمر میں کرنے پر پابندی تھی۔ تاہم یمن کے چند قانون سازوں نے اسے غیر اسلامی قرار دے کر منسوخ کر دیا۔ اس بارے میں حتمی قانونی فیصلہ ماہ رواں میں سانے آنے کی توقع ہے۔
دریں اثناء 13 سالہ یمنی لڑکی کی شادی کے بعد تین روز تک مسلسل اندرونی بلیڈنگ کے نتیجے میں واقع ہونے والی موت کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ عرب سسٹرز فورم نامی ایک گروپ نے بتایا کہ مغربی یمن کے ایک علاقے سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ لڑکی کی شادی اس کے گھر والوں نے 20 سال سے زیادہ عمر کے لڑکے سے کر دی تھی۔ ہسپتال کی رپورٹ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اس لڑکی کو شادی کے بعد تین روز تک مسلسل اندرونی بلیڈنگ ہوتی رہی۔ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے تیرہ سالہ لڑکی لقمہ اجل بن گئی۔ بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر سیگریڈ کاگ نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو اس واقع کے بارے میں ایک بیان دیتے ہوئے اسے یمن میں ہونے والا ایک اور بہیمانہ دہشت زدگی قراردیا۔
جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں جزیرہ نما عرب میں واقع ملک یمن کی سرحدیں سعودی عرب سے ملی ہوئی ہیں۔ دونوں ملکوں میں قدیم عرب روایات پر اب بھی بہت زور دیا جاتا ہے۔
رپورٹ : کشور مصطفیٰ
ادارت : عاطف توقیر