1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی تنازعے کے حل کی بحث میں ایران بھی شامل ہو: نواز شریف

امجد علی7 اپریل 2015

ایرانی حمایت سے سرگرم عمل یمنی فورسز کے خلاف سعودی مہم میں پاکستان کی ممکنہ شمولیت پر بحث جاری ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے ایران پر زور دیا ہے کہ یمن میں سلامتی کے حوالے سے جاری بحث میں اُسے بھی شریک ہونا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/1F3bH
Pakistan Nawaz Sharif
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریفتصویر: Getty Images/S. Gallup

نواز شریف نے یہ بات منگل سات اپریل کو اسلام آباد کی قومی اسمبلی میں منعقد ہونے والے اُس خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جس میں ایوانِ بالا کے ارکان بھی حصہ لے رہے ہیں اور جو سعودی فوجی مہم میں پاکستان کی ممکنہ شمولیت پر غور و خوض کے لیے بلایا گیا ہے۔ پیر کو اجلاس کے پہلے روز وزیر دفاع خواجہ آصف نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان سعودی عرب کوجنگی طیارے، جنگی بحری جہاز اور فوجی فراہم کرنا چاہتا ہے۔ اب تک کسی ایک بھی رکنِ پارلیمان نے پاکستانی دستے سعودی عرب بھیجنے کی حمایت نہیں کی ہے۔

سعودی عرب اور اُس کی اتحادی فورسز نے یمن میں سرگرمِ عمل شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف اپنے فضائی حملے گزشتہ مہینے شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت نے پاکستان سے بھی اس فوجی مہم میں شمولیت کے لیے کہا ہے۔

Ghulam Ahmad Bilour Minister Pakistan Archiv 2012
غلام احمد بلورتصویر: Reuters

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس فوجی مہم میں پاکستان کی شمولیت پر شیعہ طاقت ایران سخت ناراضی کا اظہار کرے گی، جس کی پاکستان کے ساتھ بہت طویل سرحد بھی ہے اور پاک ایران سرحد کے دونوں جانب علیحدگی پسند تحریکیں بھی زوروں پر ہیں۔

بدھ آٹھ اپریل کو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف پاکستان پہنچ رہے ہیں، جہاں غالب امکان یہ ہے کہ اُن کی بات چیت میں یمن کے موضوع کو مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔ اسی تناظر میں پاکستانی وزیر اعظم نے منگل کو پارلیمنٹ میں کہا کہ وہ اس تنازعے کے حل کی بحث میں ایران کی شرکت کا خیر مقدم کریں گے: ’’ایران کو بھی اس بحث میں شامل ہونا چاہیے اور اس بات کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ کیا اُس کی پالیسی درست ہے یا نہیں۔‘‘

اگرچہ نواز شریف نے بہت مرتبہ یہ بات کہی ہے کہ سعودی عرب کی ’علاقائی سالمیت‘ کو درپیش ہر ممکنہ خطرے کی صورت میں سعودی عرب کا دفاع کیا جائے گا تاہم اُنہوں نے کبھی بھی وضاحت سے یہ نہیں بتایا کہ وہ خطرہ کیا ہو سکتا ہے یا یہ کہ وہ کیا کارروائی کرنے کا ارادہ ر کھتے ہیں۔

روئٹرز نے اپنے جائزے میں لکھا ہے کہ سعودی قیادت میں سرگرمِ عمل اتحادی فورسز کا حصہ بننے کی صورت میں اٹھارہ کروڑ کی آبادی کے حامل پاکستان کے اندر فرقہ ورانہ کشیدگی کو ہوا ملے گی، جہاں ایک اندازے کے مطابق تقریباً بیس فیصد آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے اور جہاں شیعہ عبادت گاہوں پر حملوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

Atomverhandlungen mit Iran in Lausanne
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف بدھ آٹھ اپریل کو پاکستان پہنچ رہے ہیںتصویر: Reuters/B. Smialowski

پارلیمنٹ میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاستدان غلام احمد بلور نے کہا: ’’اگر ہم یمن کے معاملے میں ملوث ہوئے تو ایک بار پھر آگ کے شعلے ہمارے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ میری فوج کرایے پر (کہیں بھی) بھیجی جانے والی فوج نہیں ہے۔‘‘

پیر کو بحث کے پہلے روز ایوانِ بالا میں اپوزیشن کے قائد اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ حکومت کو اپنی پالیسی کی وضاحت کرنی چاہیے: ’’(وزیر دفاع) خواجہ آصف کے سعودی حاکمیتِ اعلیٰ کی خلاف ورزی اور پاکستان کی جانب سے سخت رد عمل والے بیان کا آخر مطلب کیا ہے؟ اگر حکومت پاکستانی فوجی دستے یمن یا سعودی عرب بھیجنا چاہتی ہے تو اُن کا مینڈیٹ آخر کیا ہو گا؟‘‘

خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ بحث کئی روز تک جاری رہ سکتی ہے۔ اسی دوران پاکستانی وزیر اعظم امید ظاہر کر رہے ہیں کہ ایران اور ترکی کی شمولیت سے جو ثالثی کوششیں عمل میں لائی جا رہی ہیں، اُن کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ واضح رہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن بھی منگل کو ایرانی دارالحکومت تہران میں ایرانی قیادت کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

نواز شریف کے مطابق سعودی حکومت کی درخواست پر کوئی فیصلہ کرنے کے سلسلے میں ’پاکستان کو کوئی جلدی نہیں‘ ہے اور کوئی بھی فیصلہ پارلیمان کو اعتماد میں لے کر ہی کیا جائے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید