1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی جنگ میں یورپی ہتھیار ’جلتی پر تیل‘ ہیں، یورپی پارلیمان

15 نومبر 2018

یورپی پارلیمان کے مطابق عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن کی جنگ میں یورپی ہتھیاروں سے اس خونریز تنازعے کو ہوا مل رہی ہے اور یورپی یونین کو اس صورت حال کے تدارک کے لیے بہت سخت نگرانی اور پابندیاں متعارف کرانا چاہییں۔

https://p.dw.com/p/38HKU
تصویر: picture-alliance/dpa

فرانس کے شہر اسٹراس برگ سے پندرہ نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق چودہ نومبر بدھ کی شام اس موضوع پر اپنی تفصیلی بحث میں یورپی پارلیمان کے ارکان نے جس بہت تنقیدی موقف کا اظہار کیا، وہ بہت سے یورپی حلقوں کے لیے ضمیر کی آواز بھی ثابت ہوا اور آنکھیں کھول دینے والی حقیقت بھی۔

Jemen |  Unterernährtes Kind
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Hamoud

یورپی پارلیمان کے اراکین کے بقول یورپی ممالک سے اپنے ہاں ہتھیار درآمد کرنے والے جو ممالک اس بلاک اور اس کی رکن ریاستوں کے اخلاقی اور سکیورٹی ضابطوں کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں، ان کے خلاف یونین کو پابندیاں لگا دینا چاہییں۔

اس کے علاوہ اسلحے کے یورپی برآمد کنندہ ممالک کو اس بارے میں اپنے نگرانی کے عمل کو بھی مزید سخت بنانا چاہیے کہ ان سے خریدے گئے ہتھیار کون کون سے ممالک کہاں کہاں اور کیوں استعمال کر رہے ہیں۔

’جلتی پر تیل‘

اسٹراس برگ میں اس بارے میں یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کا موقف یہ تھا کہ ہتھیاروں کی یورپی برآمدات یمن کی خانہ جنگی کو ہوا دینے کا سبب بن رہی ہیں۔ ان منتخب یورپی نمائندوں کے مطابق یہ صورت حال ’جلتی پر تیل ڈالنے‘ کے مترادف ہے۔ اس لیے کہ یمن کی جنگ میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں ایک کثیرالریاستی عسکری اتحاد اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے اور سعودی عرب کو یورپی ممالک کی طرف سے ہتھیار مہیا کیے جانا دراصل ہتھیاروں پر کنٹرول کی یورپی کوششوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔

Yemen - Schulweg in Taiz
تصویر: DW/K. Al Banna

’جنگ کی وجہ ہی یورپی ہتھیار‘

یورپی پارلیمان کی ایک جرمن خاتون رکن  زابینے لوزِنگ ان سرکردہ رہنماؤں میں شمار ہوتی ہیں، جو اس بارے میں یورپی ممالک کی حکومتوں کو جواب دہ بنائے جانے کی کٹر حامی ہیں۔ زابینے لوزِنگ نے کہا، ’’یمن میں جو جنگ جاری ہے، اس کی بنیادی وجہ وہ ہتھیار ہیں، جو یورپ کی طرف سے مہیا کیے جاتے ہیں۔‘‘

یورپی پارلیمان کے ارکان نے اس بلاک کی رکن ریاستوں سے ہتھیاروں کی فروخت کی سخت نگرانی اور مخصوص ممالک پر پابندیاں عائد کیے جانے کا جو مطالبہ کیا ہے، وہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں یورپی قانون ساز ادارے کے اراکین کی طرف سے کیا جانے والا اپنی نوعیت کا دوسرا مطالبہ ہے۔

اسٹراس برگ کی اس پارلیمان، جس کے اجلاس برسلز میں بھی ہوتے ہیں، کے ارکان نے ایک ایسی قرارداد کی منظوری بھی دے دی، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سعودی حکمرانوں کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد یورپی ریاستوں کو اپنی اسلحے کی برآمدات محدود کر دینا چاہیے۔

اسلحے کی عالمی برآمدات میں یورپ کا حصہ

شماریاتی حوالے سے یورپی یونین دنیا بھر میں امریکا کے بعد ہتھیاروں فروخت کرنے والا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یورپی یونین کی اسلحے کی برآمدات سے متعلق سالانہ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ہر سال جتنے بھی ہتھیار فروخت کیے جاتے ہیں، ان کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ یورپی ممالک ہی بیچتے ہیں۔

یورپی پارلیمنٹ کے ارکان نے اب جو قرارداد منظور کی ہے، روئٹرز کے مطابق وہی قرارداد اس امر کی طرف واضح اشارہ بھی کرتی ہے کہ اسلحے کی ان برآمدات کے باعث یورپی کاروباری مفادات خود اس بلاک کی امن اور انسانی حقوق کے احترام کی اپنی ہی اقدار سے متصادم ہو گئے ہیں۔

سعودی عرب کی طرف سے خلاف ورزیاں

یورپی یونین نے اپنے رکن ممالک کی طرف سے ہتھیاروں کی برآمد سے متعلق ’اسلحے کی برآمدات کے بارے میں مشترکہ موقف‘ نامی جو دستاویز منظور کر رکھی ہے، اس میں آٹھ ایسے بنیادی معیارات طے کیے گئے ہیں، جن کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق کسی بھی معاہدے کی منظوری سے پہلے پوری طرح ذہن نشین رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ارکان پارلیمان کا دعویٰ ہے کہ یمنی جنگ اور موجودہ صورت حال میں سعودی عرب کو یورپی ہتھیاروں کی ترسیل ان آٹھ یورپی معیارات میں سے چھ کے عین منافی ہے۔

یورپی پارلیمان کی جرمن رکن زابینے لوزِنگ کے الفاظ میں، ’’اسلحے کی برآمدات کا احاطہ کرنے والے مشترکہ یورپی موقف پر اس کی روح کے عین مطابق عمل درآمد ہونا چاہیے اور اس میں کسی بھی درآمد کنندہ ریاست کے خلاف پابندیاں عائد کیے جانے کا طریقہ کار بھی شامل ہے۔‘‘

م م / ع ت /  روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں