یمنی مظاہرین کا صدر صالح کی مخالفت شدید تر کر دینے کا عزم
24 اپریل 2011علی عبداللہ صالح نے ابھی کل ہفتہ کے روز ہی یہ وعدہ کیا تھا اور یمن میں حکمران جماعت نے بھی ملک میں جاری بد امنی اور عوامی احتجاجی لہر کے خاتمے کے لیے عرب ریاستوں کی خلیجی تعاون کی کونسل کے اس منصوبے کی منظوری دے دی تھی کہ اپوزیشن کے ساتھ تحریری معاہدہ طے پا جانے کے ایک ماہ کے اندر اندر صدر صالح مستعفی ہو جائیں گے اور سربراہ مملکت کی ذمہ داریاں نائب صدر کے حوالے کر دیں گے۔
لیکن انتہائی غربت کے شکار یمن میں گزشتہ کئی ہفتوں سے مظاہرے کرنے والے عوام، خاص کر اپوزیشن کارکنوں کو شبہ ہے کہ قریب 33 برسوں سے بر سر اقتدار صدر، بالخصوص اپنے قریبی معتمدین کے ساتھ مل کر اس وعدے پر عملدرآمد سے بچنے کا بھی کوئی راستہ نکال لیں گے۔
اسی لیے اگرچہ یمنی اپوزیشن بھی خلیجی تعاون کی کونسل کے منصوبے کو اصولی طور پر منظور کر چکی ہے تاہم اپوزیشن کے نوجوان اور زیادہ پرجوش کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس بارے میں بھی کافی نا امیدی پائی جاتی ہے کہ اپوزیشن نے عرب ریاستوں کے پیش کردہ اس ثالثی حل کو تسلیم کر لیا۔ملکی دارالحکومت صنعاء اور کئی دیگر شہروں میں اپوزیشن کارکنوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی احتجاجی تحریک کے دم توڑ جانے کا انتظار نہیں کریں گے اور نہ انہیں یقین ہے کہ اس منصوبے کے تحت جمہوری اصلاحات سے متعلق ان کی خواہش پوری ہو گی۔
بحیرہء احمر کے بندرگاہی شہر حدیدہ میں صدر صالح کے خلاف قومی سطح کی عوامی احتجاجی تحریک کے ایک مقامی رہنما عبدالحافظ معجب نے کہا کہ یمنی عوام علی عبداللہ صالح کے خلاف اپنا احتجاج اس لیے اور بھی شدید کر دیں گے کہ صدر کو فوری استعفے پر مجبور کیا جا سکے۔
یہی وجہ ہے کہ یمن میں صدر کی طرف سے کل ہفتہ کے روز کیے گئے ان کے عنقریب استعفے کے وعدے کے باوجود آج اتوار کو اپوزیشن کے احتجاج میں کوئی کمی نہیں آئی کیونکہ سڑکوں پر مظاہرے کرنے والے عام شہریوں نے صدر صالح کی اقتدار سے رخصتی کے مجوزہ منصوبے کو رد کر دیا ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: شادی خان سیف