1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن: امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں مہلک نتائج کی حامل ہونگی

15 ستمبر 2020

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے یمن کی جنگ میں دونوں جانب سے مداخلت کے سبب امدادی کارراوئیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں جس سے لاکھوں افراد کے متاثر ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔

https://p.dw.com/p/3iTZD
Jemen Flüchtlinge im Al-Raqah Flüchtlingslager
تصویر: picture-alliance/AA/M. Hamoud

حقوق انسانی کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' (ایچ آر ڈبلیو) نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں جنگ کے دوران جاری امدادی کارروائیوں میں جس انداز سے فریقین کی جانب سے روکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہے اس کے سنگین اور مہلک نتائج برآمد ہوں گے۔ تنظیم کے مطابق شمالی یمن، بشمول دارالحکومت صنعا، حکومت سے برسر پیکار حوثی باغی اور جنوبی علاقے کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت، دونوں ہی جانب سے ان افراد کو امداد پہنچانے میں سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنہیں امداد کی سخت ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ نے گزشتہ جولائی میں متنبہ کیا تھا کہ یمن میں جو صورت حال ہے اس سے لگتا ہے کہ کورونا وائرس جیسی مہلک وبا کے خطرے کے ساتھ ہی ملک بڑے پیمانے پر قحط کے دہانے پر ہے۔

روکاوٹیں ہر موڑ پر

ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ امداد پہنچانے میں ہر جانب سے مشکلات کا سامنا ہے اور امدادی منصوبوں کی منظوری میں طویل تاخیر، امدادی سروے میں روکاٹیں کھڑی کرنے، امداد کی فراہمی میں من مانی کرنے اور امدادی کارکنان کے ساتھ پر تشدد کارروائیوں جیسی پیچیدہ پابندیوں کا ایک جال سا بچھا ہوا ہے۔

فاقہ کشی کا شکار یمنی بچے

یمن کے جن علاقوں پر حوثی باغیوں کا کنٹرول ہے وہاں 2019 میں اقوام متحدہ کی جانب سے 'ورلڈ فوڈ پروگرام' کے تحت امدادی کارروائیوں کو اس وقت تک کے لیے روکنا پڑا تھا جب تک حوثی غذائی اشیاء پر ٹیکس کے اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئے۔ 2019 اور رواں برس کے منصوبوں کے تحت جو امدادی کارکن کام کر رہے تھے ان سے بھی باغیوں نے امدادی عمل مکمل ہونے کے بعد اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل فونز جیسی تمام اشیاء انہیں سونپنے کا حکم دیا تھا۔  اس کی وجہ سے بھی بہت سے کارکن امدادی کاررائیوں سے باز رہے تھے۔

ہیومن رائٹس واچ نے ایسی امدادی تنظیموں اور کارکنان پر اس بات کے لیے نکتہ چینی بھی کی ہے کہ بعض لوگوں نے اس طرح کے مطالبات کے آگے سر نگوں کیا اور انہیں تسلیم کرلیا۔  تنظیم کے مطابق اس سے حالات مزید پیچیدہ  اور خراب ہوئے ہیں۔

فنڈنگ بحران

ادارے کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے زیر کنٹرول یمن کے جنوبی علاقوں میں بھی امدادی کارکنان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، جنوبی علاقے میں بھی روکاوٹیں ہیں تاہم شمالی علاقوں کے بہ نسبت روکاوٹوں کی شدت کم ہے اور ایسے واقعات جنوب کے مقابلے میں بہت کم پیش آتے ہیں۔''

اقوام متحدہ کی جانب سے یمن میں انسانی حقوق کی رابطہ کار لیزا گرانڈے نے اگست میں متنبہ کیا تھا کہ ملک میں منصوبوں کے لیے مالی اعانت کی رقم میں شدید کمی کے سبب لاکھوں یمنی شہری، ''مصائب میں مبتلا ہوکر ہلاک ہو سکتے ہیں۔'' اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یمن کے دو کروڑ 40 لاکھ یعنی تقریباً 80 فیصد یمنی شہری کسی نہ کسی طرح کی ضرورت کے محتاج ہیں۔

یمن میں پیغمبر اسلام کا جشن ولادت

اس سے قبل بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم اقوام متحدہ کی ایجنسی نے کہا تھا کہ اگر بین الاقوامی برادری نے بڑے پیمانے پر مالی امداد فوری طور پر فراہم نہ کی تو جنگ زدہ یمن میں پانچ برس سے کم عمر کے قلت تغذیہ کا شکار بچوں کی تعداد میں 20 فیصد کا اضافہ ہوسکتا ہے اور یہ تعداد 24 لاکھ تک تک پہنچ سکتی ہے۔

 خیال رہے کہ یمن پچھلے پانچ برسوں سے جنگ کی مار جھیل رہا ہے۔ وہاں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں اور بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ حکومت کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اس حکومت کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔  پچھلے پانچ برسوں کے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ تشدد کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن میں جاری بحران کے ختم ہونے کی کوئی علامت نظر نہیں آرہی ہے اور اس کے پاس یمن کو مالی امداد برقرار رکھنے کی صورت مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ یونیسیف کو امدادی سرگرمیوں کے لیے چالیس کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ کووڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لیے الگ سے 53 ملین ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ لیکن اس کے پاس ان دونوں کے لیے بالترتیب صرف39 فیصد اور 10 فیصد رقم ہی موجود ہے۔

ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)

جنگ کے متاثرہ یمنی بچوں کے لیے روٹی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں