یمن: سعیدہ کا موت سے زندگی کی طرف سفر
جنگ زدہ یمن میں اٹھارہ سالہ سعیدہ کئی برسوں سے غذائی قلت کی شکار ہے۔ یہ تصاویر اس کے قبل از وقت موت سے زندگی کی طرف سفر کی کہانی بیان کرتی ہیں۔
مصائب کے خطرناک ثبوت
بحیرہ احمر کے ساحلی شہر الحدیدہ میں اٹھارہ سالہ سعیدہ کی لی گئی یہ تصویر اس کی حالت زار کی عکاس ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ وہاں غذائی قلت کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔
ایک مسکراہٹ
سعیدہ کو دارالحکومت صنعاء میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ہسپتال میں کئی ہفتوں کی نگہداشت کے بعد وہ کم از کم مسکرانے کے قابل ہو گئی تھی۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے اس موقع پر بھی اس کے لیے بولنا مشکل تھا۔ اس کے والدین ابھی تک پریشان ہیں کیوں کہ وہ صرف سیال طبی خوراک کھانے کے قابل ہے۔
زندگی بھر کا روگ
ڈاکٹروں کے خیال میں اس کی کمزور حالت نے اس کے حلق کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جب اسے ہسپتال لایا گیا تو سعیدہ اپنی آنکھیں تک کھولنے کے قابل نہیں تھی اور نہ ہی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق سعیدہ کے جسم کو اس قدر نقصان پہنچ چکا ہے کہ ہڈیاں کبھی بھی دوبارہ نارمل نہیں ہوں گی۔
آخر کار وزن میں اضافہ
سعیدہ کے والد احمد ہسپتال میں اس کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کی بیٹی کا وزن 16 کلوگرام ہو گیا ہے۔ جب اسے ہسپتال لایا گیا تھا تو اس کا وزن محض 11 کلوگرام تھا۔ مارچ دو ہزار پندرہ سے پہلے ہی سعیدہ کی حالت زیادہ بہتر نہ تھی لیکن یمنی بحران کی وجہ سے بھوک، غربت اور داخلی انتشار میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
غذائی عدم تحفظ
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق یمن کی آبادہ تقریبا 28 ملین نفوس پر مشتمل ہے اور ان میں سے تقریباﹰ نصف غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ سات ملین یمنی ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں تو انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آئندہ کھانا کب ملے گا۔
سعیدہ ہسپتال سے باہر
جنگ کی وجہ سے عرب دنیا کی غریب ترین یمنی قوم قحط کے دہانے پر کھڑی ہو چکی ہے جبکہ بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد تین ملین سے بھی زائد ہے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے تعز اور الحدیدہ ہیں، جہاں سے سعیدہ کا تعلق ہے۔
غذائی قلت کی ایک وجہ
یمن جنگ کے آغاز ہی میں اس ملک میں داخل ہونے والے بحری جہازوں کی آمد و رفت پر پابندیاں عائد کر دی گئیں تھیں۔ یمن کے ساحلوں پر اشیائے خورد و نوش لانے والے بحری جہازوں کی تعداد پہلے کی نسبت تقریبا نصف کم ہو گئی ہے۔
ادھر بھی توجہ دیں
یمنی خواتین غذائی قلت کے شکار ہونے والے بچوں کی تصاویر پر مبنی بینرز اٹھائے احتجاج کر رہی ہیں۔ ان کا یہ احتجاج اقوام متحدہ کے اس روڈ میپ کے خلاف ہے، جس میں حوثی باغیوں کا دارالحکومت چھوڑنے اور ایک نئے نائب صدر کا اعلان کیا گیا ہے۔ یمن جنگ میں کم از کم 10 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔