یمن: صدر صالح کو جانا ہوگا، حزبِ اختلاف
18 اپریل 2011یمن میں صدر علی عبدااللہ صالح کی حکومت کے مخالفین اور ملک میں معاشی اور سیاسی اصلاحات کے خواہش مند افراد کے رہنماؤں اور علاقائی تنظیم خلیجی تعاون کونسل کے اراکین کے دوران پہلی مرتبہ سعودی دارالحکومت ریاض میں ایک ملاقات ہوئی ہے جس میں یمنی حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے اپنے اس مطالبے کو دہرایا ہے کہ صدر صالح کا اپنے عہدے سے مستعفی ہونا لازمی ہے۔
واضح رہے کہ یمن میں گزشتہ دو ماہ سے حکومت مخالف مظاہرے کیے جا رہے ہیں جس کا مقصد صدر صالح کو صدارت چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے۔ حکومت کی جانب سے مظاہرین پر تشدّد کیا جاتا رہا ہے۔
ریاض میں ہونے والی اس ملاقات کے بعد خلیجی تعاون کونسل کے مصالحت کاروں کا کہنا تھا کہ وہ اب یمن کے حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کریں گے۔
یمنی اپوزیشن کے اراکین نے مصالحت کاروں سے کہا کہ صدر صالح کا اقتدار میں رہنا ملک کی سیکیورٹی اور سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اپوزیشن کے مطابق ریاض میں ہونے والی یہ ملاقات مثبت اور بامقصد رہی۔ اپوزیشن اتحاد کے سربراہ یاسین سعید نعمان نے مذاکرات کے بعد الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے وزرائے خارجہ یمنی حزبِ اختلاف کے مطالبات اور ان کی تحریک کے بارے میں اچھے خیالات رکھتے ہیں۔
فروری میں شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد سے اب تک یمن میں کم از کم سو افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ مظاہرین صدر صالح کے بتیس سالہ اقتدار کے خاتمے کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔
اتوار کے روز سیکیورٹی فورسز نے شمالی صوبے صنعاء اور دہمار میں مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا جس کی وجہ سے پچاس کے قریب مظاہرین کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے صنعاء میں متعدد مظاہرین کو گرفتار بھی کیا ہے۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: افسر اعوان