1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن میں اقتدار کی رسہ کشی سے عوامی تحریک غیر اہم

4 اکتوبر 2011

یمن میں کئی ماہ سے جاری مظاہروں، خونریزی اور سفارت کاری کے بعد بھی صدر صالح اور ان کے طاقتور حریفوں کے درمیان جاری رسہ کشی سے جزیرہ نما عرب کے اس ملک میں خانہ جنگی اور اقتصادی ڈھانچہ تباہ ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/12l7J
علی عبداللہ صالحتصویر: picture-alliance/dpa

صدر صالح کی اپنے سابق حلیفوں یعنی جنرل علی محسن اور احمر خاندان کے ساتھ کھینچا تانی نے ان کے تینتیس سالہ اقتدار کے خاتمے کے لیے گزشتہ کئی ماہ سے جاری مقبول مظاہروں کی اہمیت کو ماند کر دیا ہے۔ سیاسی تنازعے کی وجہ سے حکومت کی یمن کے بیشتر حصوں پر گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے اور ملک کے شمالی علاقوں میں باغیوں، جنوب میں علیحدگی پسندوں اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔

سفارت کاری کی کوششوں میں شامل ایک مغربی سفارت کار نے کہا، ’’ہمارا یہ خیال ہوتا ہے کہ سیاسی معاہدہ بس ہونے ہی والا ہے اور ایک بار پھر یہ موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔‘‘

Al-Qaida Al-Kaida Jemen Angriff
بیرونی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ یمن میں جاری افراتفری سے القاعدہ کی یمن شاخ کے ہاتھ مضبوط ہو رہے ہیںتصویر: picture alliance / dpa

صالح کی برسر اقتدار جماعت میں بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ جماعت کے ایک رہنما کا کہنا ہے، ’’اگر ہم مستقبل میں ایک جماعت کے طور پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو ہر ممکن جلد کسی سیاسی معاہدے پر دستخط کرنا ہمارے مفاد میں ہے۔‘‘

یمن کی اہم کاروباری شخصیات نے بھی سیاست دانوں پر معاہدہ کرنے کے لیے زور دیا ہے مگر صدر صالح کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ احمر خاندان اور جنرل علی محسن نے رواں برس کے اوائل میں مختلف وجوہات کی بناء پر صدر صالح سے علیحدگی اختیار کر لی تھی تاہم ان کی صالح کے اقتدار سے علیحدگی کا مطالبہ کرنے والے نوجوان مظاہرین سے کوئی وابستگی نہیں۔

بیرونی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ یمن میں جاری افراتفری سے القاعدہ کی یمن شاخ کے ہاتھ مضبوط ہو رہے ہیں۔ ملک میں جاری تشدد کے باعث لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور ڈر ہے کہ یہ بحران کہیں پھیلتے پھیلتے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔

صدر صالح قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد علاج کرانے کی غرض سے سعودی عرب چلے گئے تھے جہاں سے وہ تین ماہ بعد واپس لوٹے ہیں۔

ایک مغربی مذاکرات کار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ بات صرف ایک شخص پر آ کر رکتی ہے جو اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہا، ’’صالح کے خاندان کو اپنے مستقبل اور زندگیوں کی فکر دامن گیر ہے۔ وہ ایسے یمن سے ناواقف ہیں جو ان کے زیر کنٹرول نہ ہو۔ اسی لیے وہ کسی بھی قسم کے معاہدے کے خلاف ہیں۔‘‘

NO FLASH Jemen Proteste Demonstranten
یمن کے بیشتر عوام اس بات پر مایوس ہوتے جا رہے ہیں کہ جمہوریت کے حق میں ان کی تحریک فوج اور قبائلی اشرافیہ کے درمیان کھینچا تانی تلے دب گئی ہےتصویر: picture alliance/dpa

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مغربی طاقتیں صالح کو اقتدار پر جمے رہنے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ قطر میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی شاخ کے خلیجی امور سے متعلق ماہر Gerd Nonneman کا کہنا ہے کہ صالح کے بیٹے اور بھتیجے کے ساتھ مغرب کے انسداد دہشت گردی تعاون کا سلسلہ روکنا ہو گا۔ انہوں نے کہا، ’’امریکہ کبھی کبھار صالح پر اپنے حریفوں کے ساتھ سیاسی معاہدہ کرنے کے بارے میں زور دے دیتا ہے مگر اس کے یمنی حکومت کے ساتھ القاعدہ کے خلاف انسداد دہشت گردی تعاون کو دیکھتے ہوئے صدر صالح کے خاندان میں یہ سوچ زور پکڑتی ہے کہ اقتدار پر قبضہ چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ بین الاقوامی برادری ہمیں زبردستی بے دخل نہیں کرنا چاہتی۔‘‘

یمن کے بیشتر عوام اس بات پر مایوس ہوتے جا رہے ہیں کہ جمہوریت کے حق میں ان کی تحریک صدر، فوج اور قبائلی اشرافیہ کے مابین کھینچا تانی تلے دب گئی ہے۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ جنرل علی اور احمر ایک دن صدر صالح کے ساتھ اتحاد کر لیں اور عوام کی محنت پر پانی پھر جائے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں